Maktaba Wahhabi

1100 - 644
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد جب کوئی مومنہ عورت ہجرت کرکے آتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی روشنی میں اس کا امتحان لیتے کہ ﴿ يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ إِنَّ اللّٰهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ (۶۰: ۱۲) یعنی’’اے نبی ! جب تمہارے پاس مومن عورتیں آئیں اور اس بات پر بیعت کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کریں گی ، چوری نہ کریں گی ، زنانہ کریں گی ، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی۔ اپنے ہاتھ پاؤں کے درمیا ن سے کوئی بہتان گھڑ کر نہ لائیں گی اور کسی معروف بات میں تمہاری نافرمانی نہ کریں گی توان سے بیعت لے لو۔ اور ان کے لیے اللہ سے دعائے مغفرت کرو۔ يقيناً اللہ غفور رحیم ہے۔ )‘‘ چنانچہ جو عورتیں اس آیت میں ذکر کی ہوئی شرائط کی پابندی کا عہد کرتیں۔ آپ ان سے فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کر لی ، پھر انہیں واپس نہ پلٹا تے۔ اس حکم کے مطابق مسلمانوں نے اپنی کافرہ بیویوں کو طلاق دے دی۔ اس وقت حضرت عمر کی زوجیت میں دوعورتیں تھیں جو شرک پر قائم تھیں۔ آپ نے ان دونوں کوطلاق دے دی ، پھر ایک سے معاویہ نے شادی کرلی اور دوسری سے صفوان بن امیہ نے۔ اس معاہدے کی دفعات کا حاصل : یہ ہے صلح حدیبیہ۔ جو شخص اس کی دفعات کا ان کے پس منظر سمیت جائزہ لے گا اسے کوئی شبہ نہ رہے گا کہ یہ مسلمانوں کی فتح عظیم تھی۔ کیونکہ قریش نے اب تک مسلمانوں کا وجود تسلیم نہیں کیا تھا اور انہیں نیست ونابود کرنے کا تہیہ کیے بیٹھے تھے۔ انہیں انتظار تھا کہ ایک نہ ایک دن یہ قوت دم توڑ دے گی۔ اس کے علاوہ قریش جزیرۃ العرب کے دینی پیشوا اور دنیاوی صدر نشین ہونے کی حیثیت سے اسلامی دعوت اور عام لوگوں کے درمیان پوری قوت کے ساتھ حائل رہنے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ اس پس منظر میں دیکھئے تو صلح کی جانب محض جھک جانا ہی مسلمانوں کی قوت کا اعتراف اور اس بات کا اعلان تھا کہ اب قریش اس قوت کو کچلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ پھر تیسری دفعہ کے پیچھے صاف طور پر یہ نفسیاتی کیفیت کارفرما نظر آتی ہے کہ قریش کو دنیاوی صدرنشینی اور دینی پیشوائی کا جو منصب حاصل تھا اسے انہوں نے بالکل بھُلا دیا تھا۔ اور اب انہیں صرف اپنی پڑی تھی۔ ان کو اس سے کوئی سروکار نہ تھا کہ بقیہ لوگوں کا کیا بنتا ہے۔ یعنی اگر سارے
Flag Counter