Maktaba Wahhabi

1103 - 644
ایک کھائی کے ایسے کھوکھلے اور اندر سے کٹے ہوئے کنارے پر کھڑاہے جو کسی بھی دم ٹوٹ گرنے والا ہے۔ لہٰذا اس کی حفاظت کے لیے اس طرح کے تحفظات حاصل کر لینا ضروری ہیں۔ دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس فراخ دلی کے ساتھ یہ شرط منظور کی کہ قریش کے یہاں پناہ لینے والے کسی مسلمان کو واپس نہ طلب کریں گے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کو اپنے سماج کی ثابت قدمی اور پختگی پر پورا پورا اعتماد تھا اور اس قسم کی شرط آپ کے لیے قطعا ً کسی اندیشے کا سبب نہ تھی۔ مسلمانوں کا غم اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مناقشہ: یہ ہے معاہدۂ صلح کی دفعات کی حقیقت لیکن ان دفعات میں دوباتیں بظاہر اس قسم کی تھیں کہ ان کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت غم والم لاحق ہوا۔ ایک یہ کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا تھا کہ آپ بیت اللہ تشریف لے جائیں گے اوراس کا طواف کرینگے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف کیے بغیر واپس ہورہے تھے۔ دوسرے یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور حق پر ہیں۔ اور اللہ نے اپنے دین کو غالب کرنے کا وعدہ کیا ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کا دباؤ قبول کیا۔ اور دب کر صلح کی ؟ یہ دونوں باتیں طرح طرح کے شکوک وشبہات اور گمان ووسوسے پیدا کررہی تھیں۔ ادھر مسلمانوں کے احساسات اس قدر مجروح تھے کہ وہ صلح کی دفعات کی گہرائیوں اور مآل پر غور کرنے کے بجائے حُزن وغم سے نڈھال تھے۔ اور غالباً سب سے زیادہ غم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کوتھا۔ چنانچہ انہوں نے خدمت ِ نبوی میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا ہم لوگ حق پر اور وہ لوگ باطل پر نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں ؟ انہوں نے کہا : کیاہمارے مقتولین جنت میں اور ان کے مقتولین جہنم میں نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: تو پھر کیوں ہم اپنے دین کے بارے میں دباؤ قبول کریں ؟ اور ایسی حالت میں پلٹیں کہ ابھی اللہ نے ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ نہیں کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : خطاب کے صاحبزادے ! میں اللہ کا رسول ہو ں اور اس کی نافرمانی نہیں کرسکتا۔ وہ میری مدد کرے گا۔ اور مجھے ہرگز ضائع نہ کرے گا ، انہوں نے کہا:کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بیان نہیں کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے پاس تشریف لائیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا : کیوں نہیں ؟لیکن کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم اسی سال آئیں گے ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا: تو بہرحال تم بیت اللہ کے پاس آؤگے اور اس کا طواف کرو گے۔ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ غصے سے بپھرے ہوئے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے۔ اور ان سے وہی بات کہی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی تھیں۔ اور انہو ں نے بھی ٹھیک وہی
Flag Counter