Maktaba Wahhabi

1138 - 644
یہود نے فاش اور بدترین شکست کھائی۔ کیونکہ وہ بقیہ قلعوں کی طرح اس قلعے سے چپکے چپکے کھسک کر نہ نکل سکے بلکہ اس طرح بے محابا بھاگے کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی ساتھ نہ لے جاس کے اور انہیں مسلمانوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ اس مضبوط قلعے کی فتح کے بعد خیبر کا نصف اول یعنی نطاۃ اور شق کا علاقہ فتح ہوگیا۔ اس علاقے میں چھوٹے چھوٹے کچھ مزید قلعے بھی تھے۔ لیکن اس قلعے کے فتح ہوتے ہی یہودیوں نے ان باقی ماندہ قلعوں کو بھی خالی کردیا۔ اور شہر خیبر کے دوسرے منطقے یعنی کتیبہ کی طرف بھاگ گئے۔ خیبر کے نصف ثانی کی فتح: نطاۃ اور شق کا علاقہ فتح ہوچکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتیبہ ،و طیح اور سلالم کے علاقے کا رُخ کیا۔ سلالم بنو نضیر کے ایک مشہور یہودی ابو الحقیق کا قلعہ تھا۔ ادھر نطاۃ اور شق کے علاقے سے شکست کھا کر بھاگنے والے سارے یہودی بھی یہیں پہنچے تھے۔ اور نہایت ٹھوس قلعہ بندی کرلی تھی۔ اہل مغازی کے درمیان اختلاف ہے کہ یہاں کے تینوں قلعوں میں سے کسی قلعے پر جنگ ہوئی یا نہیں ؟ ابن اسحاق کے بیان میں یہ صراحت ہے کہ قلعہ قموص کو فتح کرنے کے لیے جنگ لڑی گئی۔ بلکہ اس کے سیاق سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ محض جنگ کے ذریعے فتح کیاگیا اور یہودیوں کی طرف سے خودسپردگی کے لیے یہاں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔[1] لیکن واقدی نے دوٹوک لفظوں میں صراحت کی ہے کہ اس علاقے کے تینوں قلعے بات چیت کے ذریعے مسلمانوں کے حوالے کیے گئے۔ ممکن ہے قلعہ قموص کی حوالگی کے لیے کسی قدر جنگ کے بعد گفت وشنید ہوئی ہو۔ البتہ باقی دونوں قلعے کسی جنگ کے بغیر مسلمانوں کے حوالے کیے گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس علاقے ۔ کتیبہ ۔ میں تشریف لائے تو وہاں کے باشندوں کا سختی سے محاصرہ کیا۔ یہ محاصرہ چودہ روز جاری رہا۔ یہود اپنے قلعوں سے نکل ہی نہیں رہے تھے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصد فرمایا کہ منجنیق نصب فرمائیں۔ جب یہود کو تباہی کا یقین ہوگیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کے لیے سلسلہ ٔ جنبانی کی۔ صلح کی بات چیت : پہلے ابن ابی الحقیق نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ کیا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بات چیت کرسکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ! اور جب یہ جواب
Flag Counter