Maktaba Wahhabi

1147 - 644
غزوۂ ذات الرقاع( ۷ھ) جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احزاب کے تین بازوؤں میں سے دو مضبوط بازوؤں کو توڑ کر فارغ ہو گئے تو تیسرے بازو کی طرف توجہکا بھر پور موقع مل گیا۔ تیسرا بازو وہ بَدُّو تھے جو نجد کے صحرا میں خیمہ زن تھے اور رہ رہ کر لوٹ مار کی کارروائیاں کرتے رہتے تھے۔ چو نکہ یہ بدُّو کسی آبادی یا شہر کے باشندے نہ تھے اوران کا قیام مکانات اور قلعوں کے اندر نہ تھا، اس لیے اہل مکہ اور باشندگان ِ خیبر کی بہ نسبت ان پر پوری طرح قابو پالینا اور ان کے شروفساد کی آگ مکمل طور پر بجھادینا سخت دشوار تھا۔ لہٰذا ان کے حق میں صرف خوف زدہ کرنے والی تادیبی کارروائیاں ہی مفید ہوسکتی تھیں۔ چنانچہ ان بدوؤں پر رعب ودبدبہ قائم کرنے کی غرض سے ۔ اور بقول دیگر مدینہ کے اطراف میں چھاپہ مارنے کے ارادے سے جمع ہونے والے بدوؤں کو پراگندہ کرنے کی غرض سے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تادیبی حملہ فرمایا جو غزوہ ذات الرقاع کے نام سے معروف ہے۔ عام اہل مغازی نے اس غزوہ کا تذکرہ ۴ھ میں کیا ہے۔ لیکن امام بخاری نے اس کا زمانہ ٔ وقوع ۷ ھ بتایا ہے اور چونکہ اس غزوے میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما نے شرکت کی تھی ، لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غزوہ ، غزوہ خیبر کے بعد پیش آیا تھا۔ (مہینہ غالباً ربیع الاول کا تھا۔ ) کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اس وقت مدینہ پہنچ کر حلقہ بگوش اسلا م ہوئے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے لیے مدینہ سے جاچکے تھے۔ پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہوکر سیدھے خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خیبر پہنچے اور جب پہنچے تو خیبر فتح ہوچکا تھا۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری حبش سے اس وقت خدمت ِ نبوی ؐمیں پہنچے تھے جب خیبر فتح ہوچکا تھا۔ لہٰذا غزوہ ذات الرقاع میں ان دونوں صحابہ کی شرکت اس بات کی دلیل ہے کہ یہ غزوۂ خیبر کے بعد ہی کسی وقت پیش آیا تھا۔ اہلِ سِیر نے اس غزوے کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ اَنمار یا بنو غطفان کی دوشاخوں بنی ثعلبہ اور بنی محارب کے اجتماع کی خبر سن کر مدینہ کا انتظام
Flag Counter