Maktaba Wahhabi

1159 - 644
تشریف لے گئے اور وہیں سے اسے الوداع کہا۔[1] اسلامی لشکر کی پیش رفت اور خوفناک ناگہانی حالت سے سابقہ: اسلامی لشکر شمال کی طرف بڑھتا ہوا معان پہنچا۔ یہ مقام شمالی حجاز سے متصل شامی (اردنی) علاقے میں واقع ہے۔ یہاں لشکر نے پڑاؤ ڈالا۔ اور یہیں جاسوسوں نے اطلاع پہنچائی کہ ہرقل قیصر ِ روم بلقاء کے علاقے میں مآب کے مقام پر ایک لاکھ رومیوں کا لشکر لے کر خیمہ زن ہے اور اس کے جھنڈے تلے لخم وجذام ، بلقین وبہرااور بلی (قبائلِ عرب ) کے مزیدایک لاکھ افراد بھی جمع ہوگئے ہیں۔ معان میں مجلس شوریٰ : مسلمانوں کے حساب میں سرے سے یہ بات تھی ہی نہیں کہ انہیں کسی ایسے لشکر جرار سے سابقہ پیش آئے گا جس سے وہ اس دور دراز سر زمین میں ایک دم اچانک دوچار ہوگئے تھے۔ اب ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا تین ہزار کا ذراسا لشکر دولاکھ کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے ٹکراجائے یا کیا کرے ؟ مسلمان حیران تھے اور اسی حیرانی میں معان کے اندر دوراتیں غور اور مشورہ کرتے ہوئے گزاردیں۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کولکھ کر دشمن کی تعداد کی اطلاع دیں۔ اس کے بعد یا تو آپ کی طرف سے مزید کمک ملے گی، یا اور کوئی حکم ملے گا اور اس کی تعمیل کی جائے گی۔ لیکن حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے اس رائے کی مخالفت کی اور یہ کہہ کر لوگوں کو گرمادیا کہ لوگو! اللہ کی قسم! جس چیز سے آپ کترارہے ہیں یہ وہی تو شہادت ہے جس کی طلب میں آپ نکلے ہیں۔ یاد رہے دشمن سے ہماری لڑائی تعداد ، قوت اور کثرت کے بل پر نہیں ہے بلکہ ہم محض اس دین کے بل پر لڑتے ہیں جس سے اللہ نے ہمیں مشرف کیا ہے۔ اس لیے چلیے آگے بڑھئے ! ہمیں دوبھلائیوں میں سے ایک بھلائی حاصل ہوکر رہے گی۔ یا تو ہم غالب آئیں گے یا شہادت سے سرفراز ہوں گے۔ بالآخر حضرت عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی پیش کی ہوئی بات طے پاگئی۔ دشمن کی طرف اسلامی لشکر کی پیش قدمی: غرض اسلامی لشکر نے معان میں دوراتیں گزارنے کے بعد دشمن کی جانب پیش قدمی کی ، اور بلقاء کی ایک بستی میں جس کا نام ’’مَشَارِف‘‘ تھا۔ ہرقل کی فوجوں سے اس کا سامنا ہوا۔ اس کے بعد دشمن
Flag Counter