Maktaba Wahhabi

1166 - 644
غزوہ فتح مکہ امام ابن ِ قیم لکھتے ہیں کہ یہ وہ فتح اعظم ہے جس کے ذریعہ اللہ نے اپنے دین کو ، اپنے رسول کو ، اپنے لشکر کو اور اپنے امانت دار گروہ کو عزت بخشی اور اپنے شہر کو اور اپنے گھر کو ، دنیا والوں کے لیے ذریعۂ ہدایت بنایا ہے۔ کفار ومشرکین کے ہاتھوں سے چھٹکارا دلایا۔ اس فتح سے آسمان والوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی، اس کی عزت کی طنابیں جوزاء کے شانوں پر تن گئیں۔ اور اس کی وجہ سے لوگ اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوئے اور روئے زمین کا چہرہ روشنی اور چمک دمک سے جگمگا اٹھا۔[1] اس غزوے کا سبب: صلح حدیبیہ کے ذکر میں ہم یہ بات بتاچکے ہیں کہ اس معاہدے کی ایک دفعہ یہ تھی کہ جوکوئی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکتا ہے اور جو کوئی قریش کے عہدوپیمان میں داخل ہونا چاہے داخل ہوسکتا ہے اور جو قبیلہ جس فریق کے ساتھ شامل ہوگا اس فریق کا ایک حصہ سمجھاجائے گا۔ لہٰذا ایسا کوئی قبیلہ اگر کسی حملے یا زیادتی کا شکار ہوگا تو یہ خود ااس فریق پر حملہ اور زیادتی تصور کی جائے گی۔ اس دفعہ کے تحت بنو خُزاعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد وپیما ن میں داخل ہوگئے اور بنو بکر قریش کے عہد وپیمان میں۔ اس طرح دونوں قبیلے ایک دوسرے سے مامون اور بے خطر ہوگئے۔ لیکن چونکہ ان دونوں قبیلوں میں دورِ جاہلیت سے عداوت اور کشاکش چلی آرہی تھی ، اس لیے جب اسلام کی آمد آمد ہوئی ، اور صلح حدیبیہ ہوگئی ، اور دونوں فریق ایک دوسرے سے مطمئن ہوگئے تو بنو بکر نے اس موقع کو غنیمت سمجھ کر چاہا کہ بنو خزاعہ سے پرانا بدلہ چکا لیں۔ چنانچہ نوفل بن معاویہ دیلی نے بنو بکر کی ایک جماعت ساتھ لے کر شعبان ۸ ھ میں بنو خزاعہ پر رات کی تاریکی میں حملہ کردیا۔ اس وقت بنو خزاعہ وتیر نامی ایک چشمے پر خیمہ زن تھے۔ ان کے متعدد افراد مارے گئے۔ کچھ جھڑپ اور لڑائی بھی ہوئی۔ ادھر قریش نے اس حملے میں ہتھیاروں سے بنو بکر کی مدد کی۔ بلکہ ان کے کچھ آدمی بھی رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر لڑائی میں شریک ہوئے۔ بہرحال حملہ آوروں نے بنوخزاعہ کو کھدیڑ کر حرم تک پہنچادیا۔ حرم پہنچ کر بنو بکر نے کہا : اے نوفل ، اب تو ہم حرم میں داخل
Flag Counter