Maktaba Wahhabi

1177 - 644
اللہ کا رسول ہوں۔ ابو سفیان نے کہا : میرے ماں باپ آپ پر فدا۔ آپ کس قدر حلیم ، کس قدر کریم اور کس قدر صلہ رحمی کرنے والے ہیں۔ اس بات کے متعلق تو اب بھی دل میں کچھ نہ کچھ کھٹک ہے۔ اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: ارے ! گردن مارے جانے کی نوبت آنے سے پہلے پہلے اسلام قبول کرلو !اور یہ شہادت واقرار کر لو کہ اللہ کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس پر ابو سفیان نے اسلام قبول کرلیا اور حق کی شہادت دی۔ حضرت عباس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! ابوسفیان اعزاز پسند ہے، لہٰذا اسے کوئی اعزاز دے دیجیے۔ آپ نے فرمایا : ٹھیک ہے۔ جو ابو سفیان کے گھر میں گھس جائے اسے امان ہے اور جو اپنا دروازہ اندر سے بند کرلے اسے امان ہے اور جو مسجد ِ حرام میں داخل ہوجائے اسے امان ہے۔ اسلامی لشکر مر الظَہران سے مکے کی جانب : اسی صبح ۔منگل ۱۷/رمضان ۸ ھ کی صبح ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر الظہران سے مکہ روانہ ہوئے اور حضرت عباس کو حکم دیا کہ ابو سفیان کو وادی کی تنگنائے پر پہاڑکے ناکے کے پاس روک رکھیں تاکہ وہاں سے گزرنے والی الٰہی فوجوں کو ابو سفیان دیکھ سکے۔ حضرت عباس نے ایسا ہی کیا۔ ادھر قبائل اپنے اپنے پھریرے لیے گزر رہے تھے۔ جب وہاں سے کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ جواب میں حضرت عباس ۔ بطورِ مثال۔ کہتے کہ بنو سلیم ہیں۔ تو ابوسفیان کہتا کہ مجھے سلیم سے کیا واسطہ ؟ پھر کوئی قبیلہ گزرتا تو ابو سفیان پوچھتا کہ اے عباس !یہ کون لوگ ہیں ؟ وہ کہتے: مُزَیْنَہ ہیں۔ ابو سفیان کہتا:، مجھے مزینہ سے کیا مطلب ؟ یہاں تک کہ سارے قبیلے ایک ایک کرکے گزر گئے۔ جب بھی کوئی قبیلہ گزرتا توابو سفیان حضرت عباس سے اس کی بابت ضرور دریافت کرتا اور جب وہ اسے بتاتے تو وہ کہتا کہ مجھے بنی فلاں سے کیا واسطہ ؟ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سبز دستے کے جلو میں تشریف لائے۔ آپ مہاجرین وانصار کے درمیان فروکش تھے۔ یہاں انسانوں کے بجائے صرف لوہے کی باڑھ دکھائی پڑرہی تھی۔ ابو سفیان نے کہا : سبحان اللہ ! اے عباس ! یہ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا : یہ انصار ومہاجرین کے جلو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرماہیں۔ ابو سفیان نے کہا : بھلا ان سے محاذآرائی کی طاقت کسے ہے ؟ اس کے بعد اس نے مزید کہا کہ ابو الفضل ! تمہارے بھتیجے کی بادشاہت تو واللہ بڑی زبردست ہوگئی۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : ابو سفیان ! یہ نبوت ہے۔ ابو سفیان نے کہا: ہاں ! اب تو یہی کہاجائے گا۔ اس موقع پر ایک واقعہ اور پیش آیا۔ انصار کا پھریرا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔
Flag Counter