Maktaba Wahhabi

1180 - 644
راستوں سے چل پڑے۔ حضرت خالد اور ان کے رفقاء کی راہ میں جو مشرک بھی آیا اسے سلادیا گیا۔ البتہ ان کے رفقاء میں سے بھی کرزبن جابر فہری اور خُنَیس بن خالد بن ربیعہ نے جامِ شہادت نوش کیا۔ وجہ یہ ہوئی کہ یہ دونوں لشکر سے بچھڑ کر ایک دوسرے راستے پر چل پڑے اور اسی دوران انہیں قتل کردیا گیا۔ خندمہ پہنچ کر حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے رفقاء کی مڈبھیڑ قریش کے اوباشوں سے ہوئی۔ معمولی سی جھڑپ میں بارہ مشرک مارے گئے اور اس کے بعد مشرکین میں بھگدڑ مچ گئی۔ حماس بن قیس جو مسلمانوں سے جنگ کے لیے ہتھیارٹھیک ٹھاک کرتا رہتا تھا بھاگ کر اپنے گھر میں جاگھسا اور اپنی بیوی سے بولا: دروازہ بند کر لو۔ اس نے کہا : وہ کہاں گیا جو تم کہا کرتے تھے ؟ کہنے لگا : إنک لو شہدت یوم الخندمہ إذ فر صفوان وفر عکرمۃ واستقبتنا بالسیوف المسلمۃ یقطعن کل ساعد وجمجمہ ضرباً فلا یسمع إلا غمغمہ لھم نہیت خلفنا وہمہمہ لم تنطقی في اللوم أدنی کلمۃ ’’اگر تم نے جنگ خندمہ کا حال دیکھا ہوتا جب کہ صفوان اورعکرمہ بھاگ کھڑے ہوئے اور سونتی ہوئی تلواروں سے ہمارا استقبال کیا گیا ، جو کلائیاں اور کھوپڑیاں اس طرح کاٹتی جارہی تھیں کہ پیچھے سوائے ان کے شور وغوغا اور ہمہمہ کے کچھ سنائی نہیں پڑتا تھا ، تو تم ملامت کی ادنیٰ بات نہ کہتیں۔‘‘ اس کے بعد حضرت خالد رضی اللہ عنہ مکہ کے گلی کوچوں کو روندتے ہوئے کوہِ صفا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ ادھر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر حجون میں مسجد فتح کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا گاڑ ا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک قُبہّ نصب کیا۔ پھر مسلسل وہیں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے۔ مسجد حرام میں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا داخلہ اور بتوں سے تطہیر : اس کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور آگے پیچھے اور گرد وپیش موجود انصار ومہاجرین کے جَلو میں مسجد حرام کے اندر تشریف لائے۔ آگے بڑھ کرحجرِ اسود کو چوما اور اس کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ایک کمان تھی ،
Flag Counter