Maktaba Wahhabi

1200 - 644
اس کے بعد جب لوگوں نے ڈیرہ ڈنڈا اٹھا کر کوچ کیا تو آپ نے فرمایا کہ یوں کہو: (( آئبون ، تائبون ، عابدون ، لربنا حامدون)) ’’ہم پلٹنے والے ، توبہ کرنے والے ، عبادت گزار ہیں ، اور اپنے رب کی حمد کرتے ہیں۔‘‘ کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! آپ ثقیف پربددعا کریں۔ آپ نے فرمایا : اے اللہ ! ثقیف کو ہدایت دے اور انہیں لے آ۔ جعرانہ میں اموالِ غنیمت کی تقسیم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف سے محاصرہ ختم کر کے واپس آئے تو جعرانہ میں کئی روز مال ِ غنیمت تقسیم کیے بغیرٹھہرے رہے۔ اس تاخیر کا مقصد یہ تھا کہ ہوازن کا وفد تائب ہوکر آپ کی خدمت میں آجائے تو اس نے جو کچھ کھویا ہے سب لے جائے۔ لیکن تاخیر کے باوجود جب آپ کے پاس کوئی نہ آیا تو آپ نے مال کی تقسیم شروع کردی، تاکہ قبائل کے رؤساء اور مکہ کے اشراف جو اُچک اُچک کر تاک رہے تھے ان کی زبان خاموش ہوجائے۔ مؤلفۃ القلوب [1]کی قسمت نے سب سے پہلے یاوری کی۔ اور انہیں بڑے بڑے حصے دیے گئے۔ ابو سفیان بن حرب کو چالیس اَوْقِیہ (کچھ کم چھ کلو چاندی ) اور ایک سو اونٹ عطا کیے گئے۔ اس نے کہا : میرا بیٹا یزید ؟ آپ نے اتنا ہی یزید کو دیا۔ اس نے کہا : اور میرا بیٹا معاویہ ؟ آپ نے اتناہی معاویہ کو بھی دیا۔ (یعنی تنہا ابو سفیان کو اس کے بیٹوں سمیت تقریبا ۱۸ کلو چاندی اور تین سواونٹ حاصل ہوگئے ) حکیم بن حزام کو ایک سو اونٹ دیے گئے۔ اس نے مزید سو اونٹوں کا سوال کیا توا سے پھر ایک سو اونٹ دیے گئے۔ اسی طرح صفوان بن امیہ کو سو اونٹ ، پھر سواونٹ اور پھر سواونٹ (یعنی تین سو اونٹ ) دیئے گئے۔ [2] حارث بن کلدہ کو بھی سو اونٹ دیے گئے۔ اور کچھ مزید قریشی وغیر قریشی رؤساء کو سو سو اونٹ دیے گئے کچھ دوسروں کو پچاس پچاس اور چالیس چالیس اونٹ دیے گئے۔ یہاں تک کہ لوگوں میں مشہور ہوگیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بے دریغ عطیہ دیتے ہیں کہ انہیں فقر کا اندیشہ ہی نہیں۔ چنانچہ مال کی طلب میں بَدُّو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ٹوٹ پڑے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درخت کی جانب سمٹنے پر مجبور کردیا۔ اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر درخت میں پھنس کررہ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! میری چادر دے دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میرے پاس تہامہ کے درختوں کی تعداد میں بھی چوپائے ہوں تو انہیں بھی تم پر تقسیم کردوں گا۔ پھر تم
Flag Counter