Maktaba Wahhabi

1217 - 644
باندھ دے۔ چنانچہ سخت آندھی چلی۔ ایک شخص کھڑا ہوگیا تو آندھی نے اسے اڑا کر طی ٔکی دوپہاڑیوں کے پاس پھینک دیا۔[1] راستے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ آپ ظہر اور عصرکی نمازیں اکٹھا اور مغرب اور عشاء کی نمازیں اکٹھا پڑھتے تھے۔ جمع تقدیم بھی کرتے تھے اور جمع تاخیربھی۔ (جمع تقدیم کا مطلب یہ ہے کہ ظہر اور عصر دونوں ظہر کے وقت میں اور مغرب اور عشاء دونوں مغرب کے وقت میں پڑھی جائیں۔ اور جمع تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ ظہر اور عصر دونوں عصر کے وقت میں اور مغرب عشاء دونوں عشاء کے وقت میں پڑھی جائیں۔ ) اسلامی لشکر تبوک میں : اسلامی لشکر تبوک میں اُتر کر خیمہ زن ہوا۔ وہ رومیوں سے دو دو ہاتھ کرنے کے لیے تیار تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ لشکر کو مخاطب کر کے نہایت بلیغ خطبہ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوامع الکلم ارشاد فرمائے۔ دنیا اور آخرت کی بھلائی کی رغبت دلائی۔ اللہ کے عذاب سے ڈرایا اور اس کے انعامات کی خوشخبری دی۔ اس طرح فوج کا حوصلہ بلند ہوگیا۔ ان میں تو شے ، ضروریات اور سامان کی کمی کے سبب جو نقص اور خلل تھا وہ اس راہ سے پُر ہوگیا۔ دوسری طرف روم اور ان کے حلیفوں کا یہ حال ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر سن کر ان کے اندر خوف کی لہر دوڑ گئی۔ انہیں آگے بڑھنے اور ٹکر لینے کی ہمت نہ ہوئی۔ اور وہ اندرون ِ ملک مختلف شہروں میں بکھر گئے۔ ان کے اس طرزِ عمل کا اثر جزیرہ عرب کے اندر اور باہر مسلمانوں کی فوجی ساکھ پر بہت عمدہ مرتب ہوا اور مسلمانوں نے ایسے ایسے اہم سیاسی فوائد حاصل کیے کہ جنگ کی صورت میں اس کا حاصل کرنا آسان نہ ہوتا۔ تفصیل یہ ہے : اَیْلَہ کے حاکم یحنہ بن روبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر جزیہ کی ادائیگی منظور کی اور صلح کا معاہدہ کیا۔ جَرْبَاء اور اَذرُخ کے باشندوں نے بھی خدمتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر جزیہ دینا منظور کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایک تحریر لکھ دی جو ان کے پاس محفوظ تھی۔ اہل ِ مقناء نے اپنے پھلوں کی چوتھائی پیداوار دینے کی شرط پر صلح کی۔ آپ نے حاکمِ اَیْلَہ کو بھی ایک تحریر لکھ دی جو یہ تھی : ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم : یہ پروانہ ٔ امن ہے اللہ کی جانب سے اور نبی محمدرسول اللہ کی جانب سے۔ یحنہ بن روبہ اور باشندگان ِایلہ کے لیے۔ خشکی اور سمندر میں ان کی کشتیوں اور قافلوں کے لیے اللہ کا ذمہ ہے اور محمد نبی کا ذمہ ہے اور یہی ذمہ ان شامی اور سمندری باشندوں کے لیے ہے جو یحنہ کے ساتھ ہوں۔ ہاں ! اگر ان کا کوئی آدمی کوئی گڑبڑ کرے گا تو اس کا مال اس کی جان کے آگے روک نہ بن سکے گا اور جو آدمی
Flag Counter