Maktaba Wahhabi

1218 - 644
اس کا مال لے لے گا اس کے لیے وہ حلال ہوگا۔ انہیں کسی چشمے پر اترنے اور خشکی یا سمندر کے کسی راستے پر چلنے سے منع نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو چارسو بیس سواروں کا رسالہ دے کر دومۃ ُ الجُندل کے حاکم اُکَیْدرکے پا س بھیجا۔ اور فرمایا : تم اسے نیل گائے کا شکار کرتے ہوئے پاؤ گے۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ وہاں تشریف لے گئے۔ جب اتنے فاصلے پر رہ گئے کہ قلعہ صاف نظر آرہا تھا تو اچانک ایک نیل گائے نکلی اور قلعہ کے دروازے پر سینگ رگڑنے لگی۔ اُکَیدر اس کے شکار کو نکلا۔ چاندنی رات تھی۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ اور ان کے سواروں نے اسے جالیا۔ اور گرفتار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جان بخشی کی۔ اور دوہزار اونٹ ، آٹھ سو غلام ، چار سو زِرہیں اور چار سو نیزوں کی شرط پر مصالحت فرمائی۔ اس نے جزیہ بھی دینے کا اقرار کیا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے یحنہ سمیت دُومہ ، تبوک ، ایلہ اور تیماء کے شرائط پر معاملہ طے کیا۔ ان حالات کو دیکھ کر وہ قبائل جو اب تک رومیوں کے آلۂ کار بنے ہوئے تھے ، سمجھ گئے کہ اب اپنے ان پُرانے سرپرستوں پر اعتماد کرنے کا وقت ختم ہوچکا ہے۔ اس لیے وہ مسلمانوں کے حمایتی بن گئے۔ اس طرح اسلامی حکومت کی سرحدیں وسیع ہوکر براہِ راست رُومی سرحد سے جاملیں اور رُوم کے آلہ کاروں کا بڑی حد تک خاتمہ ہوگیا۔ مدینہ کو واپسی: اسلامی لشکر تبوک سے مظفر ومنصور واپس آیا، کوئی ٹکر نہ ہوئی۔ اللہ جنگ کے معاملے میں مومنین کے لیے کافی ہوا۔ البتہ راستے میں ایک جگہ ایک گھاٹی کے پاس بارہ منافقین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ اس وقت آپ اس گھاٹی سے گذررہے تھے اور آپ کے ساتھ صرف حضرت عمار رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی کی نکیل تھامے ہوئے تھے اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ تھے جو اونٹنی ہانک رہے تھے۔ باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دُور وادی کے نشیب سے گذررہے تھے۔ اس لیے منافقین نے اس موقع کو اپنے ناپاک مقصد کے لیے غنیمت سمجھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف قدم بڑھایا۔ ادھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھی حسب ِ معمول راستہ طے کررہے تھے کہ پیچھے سے ان منافقین کے قدموں کی چاپیں سنائی دیں۔یہ سب چہروں پر ڈھاٹا باندھے ہوئے تھے اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تقریباً چڑھ ہی آئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو ان کی جانب بھیجا۔ انہوں نے ان کی سواریوں کے چہروں پر اپنے ایک ڈھال سے ضرب لگانی شروع کی ، جس سے اللہ نے انہیں مرعوب کردیا۔ اور وہ تیزی سے بھاگ کر لوگوں میں جاملے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے نام بتائے اور ان کے ارادے سے باخبر کیا۔ اسی لیے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کو
Flag Counter