Maktaba Wahhabi

1254 - 644
رفیق اعلیٰ کی جانب الوداعی آثار : جب دعوت دین مکمل ہوگئی اور عرب کی نکیل اسلام کے ہاتھ میں آگئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبات واحساسات ، احوال وظروف اور گفتارو کردار سے ایسی علامات نمودار ہونا شروع ہوئیں جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حیات مستعار کو اور اس جہان فانی کے باشندگان کو الوداع کہنے والے ہیں۔ مثلا ً: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان ۱۰ ھ میں بیس دن اعتکاف فرمایا جبکہ ہمیشہ دس ہی دن اعتکاف فرمایاکرتے تھے، پھر حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کو اس سال دو مرتبہ قرآن کا دَور کرایا جبکہ ہر سال ایک ہی مرتبہ دَور کرایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں فرمایا : مجھے معلوم نہیں غالبا میں اس سال کے بعد اپنے اس مقام پر تم لوگوں سے کبھی نہ مل سکوں گا۔ جمرئہ عقبہ کے پاس فرمایا : مجھ سے اپنے حج کے اعمال سیکھ لو۔ کیونکہ میں اس سال کے بعد غالبا ًحج نہ کرسکوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایام تشریق کے وسط میں سورۂ نصر نازل ہوئی۔ اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھ لیا کہ اب دنیا سے روانگی کا وقت آن پہنچا ہے۔ اور یہ موت کی اطلاع ہے۔ اوائل صفر ۱۱ ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم دامنِ اُحد میں تشریف لے گئے۔ اور شہداء کے لیے اس طرح دعا فرمائی گویا زندوں اور مردوں سے رخصت ہو رہے ہیں۔ پھر واپس آکر منبر پر فروکش ہوئے۔ اور فرمایا : میں تمہارا میر کارواں ہوں۔ اور تم پر گواہ ہوں۔ واللہ! میں اس وقت اپنا حوض ( حوضِ کوثر ) دیکھ رہا ہوں۔ مجھے زمین اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں عطا کی گئی ہیں۔ اور واللہ! مجھے یہ خوف نہیں کہ تم میرے بعد شرک کروگے۔ بلکہ اندیشہ اس کا ہے کہ دنیا کے بارے میں تنافس کروگے۔‘‘ [1] ایک روز نصف رات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع تشریف لے گئے۔ اور اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کی۔ فرمایا : اے قبر والو ! تم پر سلام ! لوگ جس حال میں ہیں اس کے مقابل تمہیں وہ حال مبارک ہو جس میں تم ہو۔ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی طرح ایک کے پیچھے ایک چلے آرہے
Flag Counter