Maktaba Wahhabi

1259 - 644
سے فرمایا کہ مجھے ان کے بازو میں بٹھا دو ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بائیں بٹھا دیا گیا ۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تکبیر سنا رہے تھے۔[1] ایک دن پہلے: وفات سے ایک دن پہلے بروز اتوار نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد فرمادیا۔ پاس میں چھ یا سات دینار تھے انہیں صدقہ کردیا۔ اپنے ہتھیار مسلمانوں کو ہبہ فرمادیے۔ رات میں چراغ جلانے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے چراغ پڑوسی کے پاس بھیجا کہ اس میں اپنی کپی سے ذرا سا گھی ٹپکا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زِ رہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع (کوئی ۷۵ کلو ) جَو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔ حیات ِ مبارکہ کا آخری دن : حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ دو شنبہ کے روز مسلمان نماز فجر میں مصروف تھے۔ اور ابو بکر رضی اللہ عنہ امامت فرمارہے تھے کہ اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کا پردہ ہٹایا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جو صفیں باندھے نماز میں مصروف تھے نظر ڈالی، پھر تبسم فرمایا۔ ادھر ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑ کے بل پیچھے ہٹے کہ صف میں جاملیں۔ انہوں نے سمجھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لانا چاہتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے اس اچانک ظہور سے ) مسلمان اس قدر خوش ہوئے کہ چاہتے تھے کہ نماز کے اندر ہی فتنے میں پڑجائیں۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مزاج پرسی کے لیے نماز توڑ دیں ) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ اپنی نماز پوری کر لو، پھر حجرے کے اندر تشریف لے گئے اور پردہ گرالیا۔[2] اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی دوسری نماز کا وقت نہیں آیا۔ دن چڑھے چاشت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلا یا اور ان سے کچھ سر گوشی کی، وہ رونے لگیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پھر بلا یا اور کچھ سرگوشی کی تو وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ بعد میں ہمارے دریافت کرنے پر انہوں نے بتایا کہ (پہلی بار ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی مرض میں وفات پاجائیں گے۔ اس لیے میں روئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے سرگوشی کرتے ہوئے بتایا کہ آپ کے اہل و
Flag Counter