Maktaba Wahhabi

1264 - 644
منگل کے روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا۔ غسل دینے والے حضرات یہ تھے۔ حضرت عباس ، حضرت علی ، حضرت عباس کے دو صاحبزادگان فضل اور قثم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام شقران ، حضرت اسامہ بن زید اور اوس بن خولی رضی اللہ عنہم ۔ حضرت عباس ، فضل اور قثم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کروٹ بدل رہے تھے۔ حضرت اسامہ اور شقران رضی اللہ عنہما پانی بہا رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ غسل دے رہے تھے۔اور حضرت اوس رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے ٹیک رکھا تھا۔[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پانی اور بیر کی پتی سے تین غسل دیا گیا۔ اور قباء میں واقع سعد بن خیثمہ کے غرس نامی کنویں سے غسل دیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا پانی پیا کرتے تھے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید یمنی چادروں میں کفنا یا گیا۔ ان میں کرتا اور پگڑی نہ تھی۔1بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادروں ہی میں لپیٹ دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری آرام گاہ کے بارے میں بھی صحابہ کرام کی رائیں مختلف تھیں، لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ کوئی نبی بھی نہیں اٹھایا گیا مگر اس کی تدفین وہیں ہوئی جہاں اٹھایا گیا۔ اس فیصلے کے بعد حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ بستر اٹھایا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تھی۔ اور اسی کے نیچے قبر کھودی۔ قبر لحد والی (بغلی ) کھودی گئی تھی۔ اس کے بعد باری باری دس دس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حجرہ شریف میں داخل ہوکر نماز جنازہ پڑھی۔ کوئی امام نہ تھا۔ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خانوادہ ( بنو ہاشم ) نے نماز جنازہ پڑھی۔ پھر مہاجرین نے ، پھر انصار نے ، پھر مردوں کے بعد عورتوں نے ، اور ان کے بعد بچوں نے۔ نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا دن گذر گیا ، اور چہار شنبہ (بدھ ) کی رات آگئی۔ رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد ِ پاک کو سپر دِ خاک کیا گیا۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کا علم نہ ہوا، یہاں تک کہ ہم نے بدھ کی رات کے درمیانی اوقات میں (اور ایک روایت کے مطابق ، آخر رات میں ) پھاؤڑوں کی آواز سنی۔[2] ٭٭٭
Flag Counter