Maktaba Wahhabi

679 - 644
تھا اور رومیوں کے آلۂ کار کی حیثیت سے دیار شام پر حکمرانی مسلسل قائم رہی۔ تا آنکہ خلافت فاروقی میں ۱۳ھ میں یَرموک کی جنگ پیش آئی اور آلِ غسان کا آخری حکمران جبلہ بن ایہم حلقہ بگوشِ اسلام ہو گیا۔[1] (اگرچہ اس کا غرور اسلامی مساوات کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کر سکا اور وہ مرتد ہو گیا۔ ) حجاز کی امارت: یہ بات تو معروف ہے کہ مکہ میں آبادی کا آغاز حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ہوا۔ آپ علیہ السلام نے 137 سال کی عمر پائی۔[2] اور تا حیات مکہ کے سربراہ اور بیت اللہ کے متولّی رہے۔ [3]آپ کے بعد آپ کے دو صاحبزادگان_____نابت پھر قیدار، یا قیدار پھر نابت ______یکے بعد دیگرے مکہ کے والی ہوئے۔ ان کے بعد ان کے نانا مضآض بن عمرو جرہمی نے زمام کار اپنے ہاتھ میں لے لی، اور اس طرح مکہ کی سربراہی بنو جرہم کی طرف منتقل ہو گئی۔ اور ایک عرصے تک انہی کے ہاتھ میں رہی۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام چونکہ اپنے والد کے ساتھ مل کر بیت اللہ کے بانی اور معمار تھے اس لئے ان کی اولاد کو ایک باوقار مقام ضرور حاصل رہا، لیکن اقتدار و اختیار میں ان کا کوئی حصہ نہ تھا۔ [4] پھر دن پہ دن اور سال پر سال گزرتے گئے لیکن حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد گوشہ گمنامی سے نہ نکل سکی، یہاں تک کہ بخت نصر کے ظہور سے کچھ پہلے بنو جرہم کی طاقت کمزور پڑ گئی اور مکہ کے افق پر عدنان کا سیاسی ستارہ جگمگانا شروع ہوا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بخت نصر نے زات عرق میں عربوں سے جو معرکہ آرائی کی تھی اس میں عرب فوج کا کمانڈر جرہمی نہ تھا۔[5] پھر بخت نصر نے جب سنہ 587 ق م میں دوسرا حملہ کیا تو بنو عدنان بھاگ کر یمن چلے گئے، اس وقت بنو اسرائیل کے نبی حضرت یرمیاہ تھے۔ وہ عدنان کے بیٹے معد کع اپنے ساتھ لے کر ملک شام لے گئے اور جب بخت نصر کا زور ختم ہوا اور معد مکہ آئے تو انہیں مکہ میں قبیلہ جرہم کا صرف ایک شخص جرشم بن جلہمہ ملا۔ معد نے اس کی لڑکی معانہ سے شادی کی اور اسی کے بطن سے نزار پیدا ہوا۔[6] اس کے بعد مکہ میں جرہم کی حالت خراب ہوتی گئی، انہیں تنگدستی نے آ گھیرا، نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے زائرین بیت اللہ پر زیادتیاں شروع کر دیں اور خانہ کعبہ کا مال کھانے سے بھی دریغ نہیں کیا ۔[7] ادھر بنو عدنان اندر ہی اندر ان کی حرکتوں پر کڑھتے اور بھڑکتے رہے اسی لئے جب بنو خزاعہ
Flag Counter