Maktaba Wahhabi

688 - 644
عَرَب ..... اَد ْیان ومذاہب عام باشندگانِ عرب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کے نتیجے میں دینِ ابراہیمی کے پیرو تھے، اس لیے صرف اللہ کی عبادت کرتے تھے اور توحید پر کاربند تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے خدائی درس و نصیحت کا ایک حصہ بھلا دیا۔پھر بھی ان کے اندر توحید اور کچھ دینِ ابراہیمی کے شعائرباقی رہے، تاآنکہ بنو خزاعہ کا سردار عمرو بن لُحَی منظر عام پر آیا۔اس کی نشوونما بڑی نیکوکاری، صدقہ و خیرات اور دینی امور سے گہری دلچسپی پر ہوئی تھی، اس لیے لوگوں نے اسے محبت کی نظر سے دیکھااور اسے اکابر علماء اور فاضل اولیاءمیں سے سمجھ کر اس کی پیروی کی۔ پھر اس شخص نے ملک شام کا سفر کیا ۔ دیکھا تو وہاں بتوں کی پوجا کی جا رہی تھی۔ اس نے سمجھا کہ یہ بھی بہتر اور برحق ہے کیونکہ ملک شام پیغمبروں کی سرزمین اور آسمانی کتابوں کی نزول گاہ تھی۔ چنانچہ وہ اپنے ساتھ ہُبَل بت بھی لے آیا۔ اسے خانہ کعبہ کے اندر نصب کردیا اور اہل مکہ کو اللہ کے ساتھ شرک کی دعوت دی۔ اہل مکہ نےاس پر لبیک کہا۔ اس کے بعد بہت جلد باشندگان حجاز بھی اہل مکہ کے نقشِ قدم پر چل پڑے، کیونکہ وہ بیت اللہ کے والی اور حرم کے باشندے تھے۔ [1] اس طرح عرب میں بت پرستی کا آغاز ہوا۔ ہُبَل کے علاوہ عرب کے قدیم ترین بتوں میں سے مَنَاۃ ہے۔ یہ بحرِاحمر کے ساحل پر قُدَید کے قریب مُثَلْل میں نصب تھا ۔[2]اس کے بعد طائف میں لات نامی بت وجود میں آیا۔ پھر وادئ نخلہ میں عزیٰ کی تنصیب عمل میں آئی۔ یہ تینوں عرب کے سب سے بڑے بت تھے۔ اس کے بعد حجاز کے ہر خطے میں شرک کی کثرت اور بتوں کی بھر مار ہو گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک جن عَمرو بن لحَی کے تابع تھا۔ اس نےبتایا کہ قومِ نوح کے بت______يعنی وَدّ،سُواع،یَغُوث،یَعُوق اور نَسْر________جدہ میں مدفن ہیں۔اس اطلاع پر عمروبن لحَی جدہ آیا اور ان بتوں کو کھود نکالا۔ پھر انہیں تہامہ لایا اور جب حج کا زمانہ آیا تو انہیں مختلف قبائل کے حوالے کیا۔ یہ قبائل ان بتوں کو اپنے اپنے علاقوں میں
Flag Counter