Maktaba Wahhabi

698 - 644
دینی حالت : جس وقت اسلام کا نیرِ تاباں طلوع ہوا ہے یہی مذاہب و ادیان تھے جو عرب میں پائے جاتے تھے۔ لیکن یہ سارے ہی مذاہب شکست و ریخت سے دوچار تھے۔ مشرکین جن کا دعویٰ تھا کہ ہم دینِ ابراہیم پر ہیں ، شریعتِ ابراہیمی کے اوامر و نواہی سے کوسوں دُور تھے۔ اس شریعت نے جن مکارمِ اخلاق کی تعلیم دی تھی ان سے ان مشرکین کو کوئی واسطہ نہ تھا۔ ان میں گناہوں کی بھرمار تھی اور طولِ زمانہ کے سبب ان میں بھی بُت پرستوں کی وہی عادات و رسوم پیدا ہو چکی تھیں۔ جنہیں دینی خرافات کا درجہ حاصل ہے۔ ان عادات و رسوم نے ان کی اجتماعی سیاسی اور دینی زندگی پر نہایت گہرے اثرات ڈالے تھے۔ یہودی مذہب کا حال یہ تھا کہ وہ محض ریاکاری اور تحکم بن گیا تھا۔ یہودی پیشوا اللہ کے بجائے خود رب بن بیٹھے تھے۔ لوگوں پر اپنی مرضی چلاتے تھے اور ان کے دلوں میں گزرنے والے خیالات اور ہونٹوں کی حرکات تک کا محاسبہ کرتے تھے۔ ان کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز تھی کہ کسی طرح مال و ریاست حاصل ہو، خواہ دین برباد ہی کیوں نہ ہو اور کفر و الحاد کو فروغ ہی کیوں نہ حاصل ہو اور ان تعلیمات کے ساتھ تساہل ہی کیوں نہ برتا جائے جن کی تقدیس کا اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو حکم دیا ہے اور جن پر عمل درآمد کی ترغیب دی ہے۔ عیسائیت ایک ناقابلِ فہم بُت پرستی بن گئی تھی۔ اس نے اللہ اور انسان کو عجیب طرح سے خلط ملط کر دیاتھا۔ پھر جن عربوں نے اس دین کو اختیار کیا تھا ان پر اس دین کا کوئی حقیقی اثر نہ تھا کیونکہ ا س کی تعلیمات ان کے مالوف طرزِ زندگی سے میل نہیں کھاتی تھیں اور وہ اپنا طرِ زندگی چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ باقی ادیانِ عرب کے ماننے والوں کا حال مشرکین ہی جیسا تھا کیونکہ ان کے دل یکساں تھے، عقائد ایک سے تھے اور رسم و رواج میں ہم آہنگی تھی۔
Flag Counter