Maktaba Wahhabi

702 - 644
أو مظلومًا)) (اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ ظالم ہو یا مظلوم) اس مثل کے معنی میں ابھی وہ اصلاح نہیں ہوئی تھی جو بعدمیں اسلام کے ذریعے کی گئی۔ یعنی ظالم کی مدد یہ ہے کہ اسے ظلم سے باز رکھا جائے ، البتہ شرف وسرداری میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کا جذبہ بہت سی دفعہ ایک ہی شخص سے وجود میں آنے والے قبائل کے درمیان جنگ کا سبب بن جایا کرتا تھا ، جیسا کہ اَوس وخزرج ، عَبْس و ذُبَیْان اور بکر و تَغْلب وغیرہ کے واقعات میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جہاں تک مختلف قبائل کے ایک دوسرے سے تعلقات کا معاملہ ہے تو یہ پوری طرح شکسۃ وریختہ تھے۔ قبائل کی ساری قوت ایک دوسرے کے خلاف جنگ میں فنا ہورہی تھی۔ البتہ دین اور خرافات کے آمیز ے سے تیار شدہ بعض رسوم و عادات کی بدولت بسا اوقات جنگ کی حِدّ ت و شِدّت میں کمی آجاتی تھی اور بعض حالات میں مُوالاۃ، حلف اور تابعداری کے اصولوں پر مختلف قبائل یکجا ہو جاتے تھے۔ علاوہ ازیں حرام مہینے ان کی زندگی اور حصول معاش کے لیے سراپا رحمت ومدد تھے۔ خلاصہ یہ کہ اجتماعی حالت ضُعف وبے بصیرتی کی پستی میں گری ہوئی تھی۔ جہل اپنی طنابیں تانے ہوئے تھا اور خرافات کا دور دورہ تھا۔ لوگ جانوروں جیسی زندگی گزار رہے تھے۔ عورت بیچی اور خریدی جاتی تھی اور بعض اوقات اس سے مٹی اور پتھر جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ قوم کے باہمی تعلقات کمزور بلکہ ٹوٹے ہو ئے تھے اور حکومتوں کے سارے عزائم ، اپنی رعایا سے خزانے بھر نے یا مخالفین پر فوج کشی کرنے تک محدود تھے۔ اقتصادی حالت: اقتصادی حالت، اجتماعی حالت کے تابع تھی۔ اس کا اندازہ عرب کے ذرائع معاش پر نظر ڈالنے سیہوسکتا ہے کہ تجارت ہی ان کے نزدیک ضروریات زندگی حاصل کرنے کا سب سے اہم ذریعہ تھی اور معلوم ہے کہ تجارتی آمد ورفت امن وسلامتی کی فضا کے بغیر آسان نہیں اور جزیرۃ العرب کا حال یہ تھا کہ سوائے حرمت والے مہینوں کے امن وسلامتی کا کہیں وجود نہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صرف حرام مہینوں ہی میں عرب کے مشہور بازار عُکاظ ، ذی المجَاز اور مَجِنہ وغیرہ لگتے تھے۔ جہاں تک صنعتوں کا معاملہ ہے تو عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ کپڑے کی بُنائی اور چمڑے کی دِباغت وغیرہ کی شکل میں جو چند صنعتیں پائی بھی جاتی تھیں وہ زیادہ تریمن، حیرہ اور شام کے متصل علاقوں میں تھیں۔البتہ اندرونِ عرب کھیتی باڑی اور گلہ بانی کا کسی قدر رواج تھا۔
Flag Counter