Maktaba Wahhabi

724 - 644
جھگڑے کا حاکم مان لیں۔لوگوں نے یہ تجویز منظور کر لی ۔اللہ کی مشیت کے اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ ھذٰا الامین رضینا ھذٰا محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم ۔ یہ امین ہیں، ہم ان سے راضی ہیں یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پھر جب آپ انکے قریب پہنچے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معاملے کی تفصیل بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر طلب کی بیچ میں حجر اسود رکھا اور متنازعہ قبائل کے سرداروں سے کہا کہ آپ سب حضرات چادر کا کنارا پکڑ کر اوپر اٹھائیں انہوں نے ایسا ہی کیا جب چادر حجر اسود کے مقام تک پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسم نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود کو اس کی مقررہ جگہ پر رکھ دیا۔ یہ بڑا معقول فیصلہ تھا اس پر ساری قوم راضی ہو گئی۔ ادھر قریش کے پاس مال حلال کی کمی پڑ گئی اس لئے انہوں نے شمال کی طرف سے کعبہ کی لمبائی تقریبا ً چھہ ہاتھ کم کردی یہی ٹکڑا حطیم اور حجر کہلاتا ہے۔ اس دفعہ قریش نے کعبہ کا دروازہ زمین سے خاصا بلند کر دیا تاکہ اس میں وہی شخص داخل ہو سکے جسے وہ اجازت دیں۔ جب دیواریں پندرہ ہاتھ بلند ہو گئیں تو اندر چھہ ستوں کھڑے کر کے اوپر سے چھت ڈال دی گئی اور کعبہ اپنی تکمیل کے بعد قریب قریب چوکور شکل کا ہو گیا۔ اب خانہ کعبہ کی بلندی پندرہ میٹر ہے، حجر اسود والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی جنوبی اور شمالی دیواریں دس دس میٹر ہیں، حجر اسود مطاف کی زمین سے ڑیڑھ میٹر کی بلندی پر ہے۔ دروازے والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی مشرقی اور مغربی دیواریں بارہ بارہ میٹر ہیں۔ دروازہ زمین سے دو میٹر بلند ہے۔ دیوار کے گرد نیچے ہر چار جانب سے ایک بڑھے ہوئے کرسی نما ضلعے کا گھیرا ہے جسکی اوسط اونچائی 25 سینٹی میٹر اور چوڑائی 30 سینٹی میٹر ہے۔ اسے شاذروان کہتے ہیں،یہ بھی اصل میں بیت اللہ کا جزو ہے لیکن قریش نے اسے بھی چھوڑ دیا تھا۔[1] نبوت سے پہلے کی اجمالی سیرت: نبی صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود ان تمام خوبیوں اور کمالات کا جامع تھا جو متفرق طور پر لوگوں کے مختلف طبقات میں پائے جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اصابتِ فکر، دوربینی اور حق پسندی کا بلند مینار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو حُسنِ فراست، پختگی فکر اور
Flag Counter