Maktaba Wahhabi

727 - 644
نبوت و رِسالت کی چھاؤں میں غارِ حِرا ء کے اندر: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر شریف جب چالیس برس کے قریب ہو چلی اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اب تک کے تاملات نے قوم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہنی اور فکری فاصلہ بہت وسیع کر دیا تھا.... تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہائی محبوب ہو گئی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ستو اور پانی لے کر مکہ سے کوئی دو میل دور کوہِ حراء کے ایک غار میں جا رہتے۔ یہ ایک مختصر سا غار ہے جس کا طُول چار گز اور عرض پونے دو گز ہے۔ یہ نیچے کی جانب گہرا نہیں ہے بلکہ ایک مختصر راستے کےبازو میں اوپر کی چٹانوں کے باہم ملنے سے ایک کوتَل کی شکل اختیار کئے ہوئے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب یہاں تشریف لے جاتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جاتیں اور قریب ہی کسی جگہ موجود رہتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان بھر اس غار میں قیام فرماتے۔ آنے جانے والے مسکینوں کو کھانا کھلاتے اور بقیہ اوقات اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزارتے، کائنات کے مشاہد اور اس کے پیچھے کارفرما قدرتِ نادرہ پر غور فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم کے لچر پوچ شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بالکل اطمینان نہ تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کوئی واضح راستہ، معین طریقہ اور افراط و تفریط سے ہٹی ہوئی کوئی ایسی راہ نہ تھی جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان و انشراح قلب کے ساتھ رواں دواں ہو سکتے۔ [1] نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تنہائی پسندی بھی درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ایک تدبیر کا حصہ تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آنے والے کارِ عظیم کے لیے تیار کر رہا تھا۔ درحقیقت جس روح کے لیے بھی یہ مقدر ہو کہ وہ انسانی زندگی کے حقائق پر اثر انداز ہو کر ان کا رُخ بدل ڈالے اس کے لیے ضروری ہے کہ زمین کے مشاغل، زندگی کے شور اور لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ہَمّ و غم کی دنیا سے کٹ کر کچھ عرصے کے لیے الگ تھلگ اور خلوت نشین رہے۔ ٹھیک اسی سنت کے مطابق جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو امانتِ کبریٰ کا بوجھ اٹھانے، روئے زمین کو بدلنے اور خطہِ تاریخ کو موڑنے کے لیے تیار کرنا چاہا تو رسالت کی ذمہ داری عائد کرنے
Flag Counter