Maktaba Wahhabi

749 - 644
’’اس نے سوچا اور اندازہ لگایا۔وہ غرت ہو۔ اس نے کیسا اندازہ لگایا۔ پھر غارت ہو اس نے کیسا اندازہ لگایا! پھر نظر دوڑائی۔ پھر پیشانی سکوڑی اور منہ بسورا۔ پھر پلٹا اور تکبّر کیا۔آخرکار کہا کہ یہ نرالا جادو ہے، جو پہلے سے نقل ہوتا آ رہا ہے۔یہ محض انسان کا کلام ہے۔‘‘ بہرحال یہ قرارداد طے پا چکی تو اسکو جامع عمل پہنانے کی کاروائی شروع ہوئی۔کچھ کفار مکہ عازمین حض کے مختلف راستوں پر بیٹھ گئے اور وہاں سے ہر گزرنے والے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے "خطرے" سے آگاہ کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق تفصیلات بتانے لگے۔[1] اس کام میں سب سے پیش پیش ابو لہب تھا۔ وہ حج کے ایام میں لوگوں کے ڈیروں اور عکاظ،مجنہ، اور ذوالنجار کے بازاروں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے لگا رہتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے دین کی تبلیغ کرتے اور ابو لہب پیچھے پیچھے یہ کہتا کہ اس کی بات نہ ماننا یہ جھوٹا بددین ہے۔[2] اس دوڑ دھوپ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس حج سے اپنے گھروں کو واپس ہوئی تو ان کے علم میں یہ بات آ چکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوّت کا دعویٰ کیا ہے اور یوں انکے ذریعے پورے دیار عرب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چرچا پھیل گیا۔ محاذ آرائی کے مختلف انداز: جب قریش نے دیکھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ دین سے روکنے کی حکمت کارگر نہیں ہو رہی ہے تو ایک بار انہوں نے غور و خوض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا قلع قمع کرنے کیلئے مختلف طریقے اختیار کئے جن کا خلاصہ یہ ہے۔ 1۔ ہنسی، ٹھٹھا، تحقیر، استہزاء اور تکزیب۔ اسکا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو بددل کرکے انکے حوصلے توڑ دئیے جائیں۔ اس کے لئے مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناروا تہمتوں اور بیہودہ گالیون کا نشانہ بنایا۔ چنانچہ وہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پاگل کہتے۔ جیسا کہ ارشاد ہے: ﴿وَقَالُواْ يَا اَيُّھَا الَّذِي نُزِّلَ عَلَيْہِ الذِّكْرُ اِنَّكَ لَمَجْنُونٌ﴾(الحجر15: 6) ترجمہ: ان کفار نے کہا اے وہ شخص جس پر قران نازل ہوا تو پاگل ہے۔ اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادوگر اور جھوٹے ہونے کا الزام لگاتے چنانچہ ارشاد ہے:
Flag Counter