Maktaba Wahhabi

752 - 644
بخدا وہ کاہن بھی نہیں۔ہم نے کاہن بھی دیکھے ہیں، ان کی الٹی سیدھی حرکتیں بھی دیکھی ہیں اور ان کی فقرہ بندیاں بھی سنی ہیں۔تم لوگ کہتے ہو کہ وہ شاعر ہیں۔نہیں بخدا وہ شاعر بھی نہیں، ہم نے شعر بھی دیکھا ہے اور اس کے سارے اصناف،ہجز،رجز وغیرہ بھی سنے ہیں۔تم لوگ کہتے ہو وہ پاگل ہیں۔ نہیں، بخدا وہ پاگل بھی نہیں، ہم نے پاگل پن بھی دیکھا ہے، یہاں نہ اس طرح کی گھٹن ہے نہ ویسی بہکی بہکی باتیں ہیں اور نہ انکے جیسی فریب کارانہ گفتگو۔ قریش کے لوگو! سوچو! خدا کی قسم تم پر زبردست افتاد آن پڑی ہے۔ اس کے بعد نضر بن حارث حیرہ گیا۔وہاں بادشاہوں کے واقعات اور رستم اور اسفند یار کے قصے سیکھے،پھر واپس آیا تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی جگہ بیٹھ کر اللہ کی باتیں کرتے اور اس کی گرفت سے لوگوں کو ڈراتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ شخص وہاں پر پہنچ جاتا اور کہےا کہ بخدا! محمد کی باتیں مجھ سے بہتر نہیں،اس کے بعد وہ فارس کے بادشاہوں، اور رستم و اسفندیار کے قصے سناتا پھر کہتا۔ آخر کس بنا پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مجھ سے بہتر ہے۔[1] ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نضر نے چند لونڈیاں بھی خرید رکھی تھیں اور جب وہ کسی آدمی کے متعلق سنتا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل ہے تو اس پر ایک لونڈی مسلط کر دیتا جو اسے کھلاتی پلاتی اور گانے سناتی، یہاں تک کہ اسلام کی طرف اسکا جھکاؤ باقی نہ رہ جاتا۔ اسی سلسلے میں یہ ارشاد نازل ہوا۔[2] ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَھْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّہِ﴾(لقمان31:6) ’’کچھ لوگ ایسے ہیں جو کھیل کی بات خریدتے ہیں تاکہ اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں۔‘‘ محاذ آرائی کی چوتھی صورت: سودے بازیاں جن کے ذریعے مشرکین کی یہ کوشش تھی کہ اسلام اور جاہلیت دونوں بیچ راستے میں ایک دوسرے سے جا ملیں۔ یعنی کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر اپنی بعض باتیں مشرکین چھوڑ دیں اور بعض باتیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑ دیں۔ قران پاک میں اسی کے متعلق ارشاد ہے: ﴿وَدُّو لَو تَدھِنُ فَیُد ھِنوُنَ﴾( القلم68: 9) ’’وہ چاہتے ہیں کہ آپ ڈھیلے پڑ جائیں تو وہ بھی ڈھیلے پڑ جائیں۔‘‘ چنانچہ ابن جریر اور طبرانی کی ایک روایت ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تجویز
Flag Counter