Maktaba Wahhabi

775 - 644
بن عمرو بن عاص ر ضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ سب سے سخت ایذا رسانی تھی جو میں نے قریش کو بھی کبھی کرتے ہوئے دیکھی۔[1] انتہی ملخصا صحیح بخاری میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے ان کا بیان مروی کہ میں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سوال کیا کہ مشرکین نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو سب سے سخت ترین بدسلوکی کی تھی آپ مجھے اس کی تفصیل بتائیے؟ انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ حطیم میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ بن ابی معیط آگیا اس نے آتے ہی اپنا کپڑا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن میں ڈال کر نہایت سختی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹا۔اتنے میں ابو بکر رضی اللہ عنہ آ پہنچے۔اور انہوں نے اس کے دونوں کندھے پکڑ دھکا دیا اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دور کرتے ہوئے فرمایا۔"اَتَقتُلُونَ رَجُلاً اَن یَّقُولَ رَبِیّ اللہ؟ " تم لوگ ایک آدمی کو اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے؟‘‘[2] حضرت اسماء رضی اللہ عنہ کی رویت میں مزید تفصیل ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس یہ چیخ پہنچی کہ اپنے ساتھی کو بچاؤ۔ وہ جھٹ ہمارے پاس سے نکلے۔ ان کے سر پر چار چوٹیاں تھیں۔ وہ یہ کہتے ہوئے گئے کہ "اَتَقتُلُونَ رَجُلاً اَن یَّقُولَ رَبِیّ اللّٰہ؟ تم لوگ ایک آدمی کو محض اس لئے قتل کرنا چاہتے ہو کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔مشرکین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر ابو بکر رضی اللہ عنہ پر پل پڑے،وہ واپس آئے تو حالت یہ تھی کہ ہم ان کی چوٹیوں کا جو بال بھی چھوتے تھے وہ ہماری چٹکی کے ساتھ چلا آتا تھا۔[3] حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قبولِ اسلام! مکہ کی فضا ظلم و جور کے ان سیاہ بادلوں سے گھمبیر تھی کہ اچانک ایک بجلی چمکی اور مقہوروں کا راستہ روشن ہو گیا، یعنی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہو گئے۔ ان کے اسلام لانے کا واقعہ سن 6 نبوی کے اخیر کا ہے، اور اغلب یہ ہے کہ وہ ماہ ذی الحجہ میں مسلمان ہوئے تھے۔ ان کے اسلام لانے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز ابو جہل کوہِ صفا کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس سے گذرا تو آپ (ص) کو ایذا پہنچائی اور سخت سست کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم
Flag Counter