Maktaba Wahhabi

810 - 644
کی کنگھیاں کردی جاتی تھی لیکن یہ سختی بھی انہیں دین سے باز نہ رکھتی تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس امر کو، یعنی دین کو مکمل کرکے رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضرموت تک جائے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ہوگا۔ البتہ بکری پر بھیڑ یے کا خوف ہوگا۔[1]ایک روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ لیکن تم لوگ جلدی کررہے ہو۔ [2]یاد رہے کہ یہ بشارتیں کچھ ڈھکی چھپی نہ تھیں، بلکہ معروف ومشہور تھیں اور مسلمانوں ہی کی طرح کفار بھی ان سے واقف تھے۔ چنانچہ جب اسود بن مطلب اور اس کے رفقاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھتے تو طعنہ زنی کرتے ہوئے آپس میں کہتے کہ لیجئے !آپ کے پاس روئے زمین کے بادشاہ آگئے ہیں۔ یہ جلد ہی شاہانِ قیصر وکسریٰ کو مغلوب کرلیں گے۔ اس کے بعد وہ سیٹیاں اور تالیاں بجاتے۔[3] بہر حال صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف اس وقت ظلم وستم اور مصائب وآلام کا جو ہمہ گیر طوفان بر پاتھا اس کی حیثیت حصولِ جنت کی ان یقینی امیدوں اور تابناک وپر وقار مستقبل کی ان بشارتوں کے مقابل اس بادل سے زیادہ نہ تھی جو ہوا کے جھٹکے سے بکھر کر تحلیل ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان کوایمانی مرغوبات کے ذریعے مسلسل روحانی غذا فراہم کررہے تھے۔ تعلیم کتاب و حکمت کے ذریعے ان کے نفوس کا تزکیہ فرمارہے تھے۔ نہایت دقیق اور گہری تربیت دے رہے تھے اور روح کی بلندی ، قلب کی صفائی ، اخلاق کی پاکیزگی، مادیات کے غلبے سے آزادی ، شہوات کی مقاومت اور رب السموات والارض کی کشش کے مقامات کی جانب ان کے نفوسِ قدسیہ کی حدی خوانی فرمارہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دلوں کی بجھتی ہوئی چنگاری کو بھڑکتے ہوئے شعلوں میں تبدیل کردیتے تھے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر نور زار ہدایت میں پہنچارہے تھے۔ انہیں اذیتوں پر صبر کی تلقین فرماتے تھے اور شریفانہ درگزر اور قہرِ نفس کی ہدایت دیتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کی دینی پختگی فزوں تر ہوتی گئی اور وہ شہوات سے کنارہ کشی ، رضائے الٰہی کی راہ میں جاں سپاری ، جنت کے شوق ، علم کی حرص، دین کی سمجھ ، نفس کے محاسبے ، جذبات کو دبانے ، رجحا نات کو موڑنے ، ہیجانات کی لہروں پر قابو پانے اور صبر وسکون اور عزّووقار کی پابندی کرنے میں انسانیت کا نادرہ ٔ روز گار نمونہ بن گئے۔ ٭٭٭
Flag Counter