Maktaba Wahhabi

842 - 644
کہ آج عقبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری ملاقات طے ہے۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور ہمارے ساتھ عقبہ میں تشریف لے گئے اور نقیب بھی مقرر ہوئے۔ ‘‘ حضرت کعب رضی اللہ عنہ واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ہم لو گ حسبِ دستور اس رات اپنی قوم کے ہمراہ اپنے ڈیروں میں سوئے ، لیکن جب تہائی رات گزر گئی تو اپنے ڈیروں سے نکل نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طے شدہ مقام پر جا پہنچے۔ ہم اس طرح چپکے چپکے دبک کر نکلتے تھے جیسے چڑیا گھونسلے سے سکڑ کر نکلتی ہے۔ یہاں تک کہ ہم سب عقبہ میں جمع ہوگئے۔ ہماری کل تعداد پچھتّر تھی۔ تہتر مرد اور دو عورتیں ایک ام عمارہ نسیبہ بنت کعب تھیں۔ جو قبیلہ بنومازن بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسری ام منیع اسماء بنت عمرو تھیں۔ جن کا تعلق قبیلہ بنوسلمہ سے تھا۔ ہم سب گھاٹی میں جمع ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر نے لگے اور آخر وہ لمحہ آہی گیا جب آپ تشریف لائے۔ آپ کے ساتھ آپ کے چچا حضرت عبا س بن عبد المطلب بھی تھے۔ وہ اگر چہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر تھے مگر چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملہ میں موجود رہیں اور ان کے لیے پختہ اطمینان حاصل کرلیں۔ سب سے پہلے بات بھی انہیں نے شروع کی۔[1] گفتگو کا آغاز اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی طرف سے معاملے کی نزاکت کی تشریح : مجلس مکمل ہوگئی تو دینی اور فوجی تعاون کے عہد وپیمان کو قطعی اور آخری شکل دینے کے لیے گفتگو کا آغاز ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس نے سب سے پہلے زبان کھولی۔ ان کا مقصود یہ تھا کہ وہ پوری صراحت کے ساتھ اس ذمہ داری کی نزاکت واضح کردیں جو اس عہد وپیمان کے نتیجے میں ان حضرات کے سر پڑنے والی تھی۔ چنانچہ انہوں نے کہا: خزرج کے لوگو ! عام اہل ِ عرب انصار کے دونوں ہی قبیلے، یعنی خزرج اور اوس کو خزرج ہی کہتے تھے ۔ ہمارے اندر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حیثیت ہے وہ تمہیں معلوم ہے۔ ہماری قوم کے جو لوگ دینی نقطۂ نظر سے ہمارے ہی جیسی رائے رکھتے ہیں۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے محفوظ رکھا ہے۔ وہ اپنی قوم اور اپنے شہر میں قوت وعزت اور طاقت وحفاظت کے اندر ہیں۔ مگر اب
Flag Counter