Maktaba Wahhabi

850 - 644
ہجرت کے ہر اول دستے جب دوسری بیعت عقبہ مکمل ہوگئی۔ اسلام ، کفر وجہالت کے لق ودق صحرا میں اپنے ایک وطن کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہوگیا ۔۔ اور یہ سب سے اہم کامیابی تھی جو اسلام نے اپنی دعوت کے آغاز سے اب تک حاصل کی تھی ۔۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اجازت مرحمت فرمائی کہ وہ اپنے وطن کی طرف ہجرت کرجائیں۔ ہجرت کے معنی یہ تھے کہ سارے مفادات تج کر اور مال کی قربانی دے کر محض جان بچالی جائے اور وہ بھی یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ جان بھی خطرے کی زد میں ہے۔ ابتدائے راہ سے انتہائے راہ تک کہیں بھی ہلاک کی جاسکتی ہے۔ پھر سفر ایک مبہم مستقبل کی طرف ہے۔ معلوم نہیں آگے چل کر ابھی کون کون سے مصائب اور غم والم رونماہوں گے۔ مسلمانوں نے یہ سب کچھ جانتے ہوئے ہجرت کی ابتدا کردی۔ ادھر مشرکین نے بھی ان کی روانگی میں رکاوٹیں کھڑی کرنی شروع کیں۔ کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ اس میں خطرات مضمر ہیں۔ ہجرت کے چند نمونے پیش خدمت ہیں : 1۔ سب سے پہلے مہاجر حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے ابن اسحاق کے بقول بیعت عقبہ کُبریٰ سے ایک سال پہلے ہجرت کی تھی ، ان کے ہمراہ ان کے بیوی بچے بھی تھے۔ جب انہوں نے روانہ ہونا چاہا تو ان کے سسرال والوں نے کہا کہ یہ رہی آپ کی جان۔ اس کے متعلق تو آپ ہم پر غالب آگئے لیکن یہ بتائیے کہ یہ ہمارے گھر کی لڑکی؟ آخر کس بنا پر ہم آپ کو چھوڑ دیں کہ آپ اسے شہر شہر گھماتے پھریں ؟ چنانچہ انہوں نے ان سے ان کی بیوی چھین لی۔ اس پر ا بوسلمہ کے گھر والوں کو تاؤ آگیا اور انہوں نے کہا کہ جب تم لوگوں نے اس عورت کو ہمارے آدمی سے چھین لیا تو ہم اپنا بیٹا اس عورت کے پاس نہیں رہنے دے سکتے۔ چنانچہ دونوں فریق نے اس بچے کو اپنی اپنی طرف کھینچا جس سے اس کا ہاتھ اکھڑ گیا اور ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر والے اس کو اپنے پاس لے گئے۔ خلاصہ یہ کہ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے تنہا مدینہ کا سفر کیا۔ اس کے بعد حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کی روانگی اور اپنے بچے سے محرومی کے
Flag Counter