Maktaba Wahhabi

854 - 644
قریش کی پارلیمنٹ دار الندوہ میں جب مشرکین نے دیکھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تیار ہو ہو کر نکل گئے اور بال بچوں اور مال ودولت کولا دپھاند کر اَوس وخَزرَج کے علاقے میں جاپہنچے تو ان میں بڑا کہرام مچا۔ غم والم کے لاوے پھوٹ پڑے اور انہیں ایسا رنج وقلق ہوا کہ اس سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا۔ اب ان کے سامنے ایک ایسا عظیم اور حقیقی خطرہ مجسم ہوچکا تھا جوان کی بت پرستانہ اور اقتصادی اجتماعیت کے لیے چیلنج تھا۔ مشرکین کو معلوم ہوا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر کمال قیادت ورہنمائی کے ساتھ ساتھ کس قدر انتہائی درجہ قوتِ تاثیر موجود ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں کیسی عزیمت واستقامت اور کیسا جذبہ فداکاری پایا جاتا ہے۔ پھر اوس وخزرج کے قبائل میں کس قدر قوت وقدرت اور جنگی صلاحیت ہے اور ان دونوں قبائل کے عقلاء میں صلح وصفائی کے کیسے جذبات ہیں اور وہ کئی برس تک خانہ جنگی کی تلخیاں چکھنے کے بعد اب باہمی رنج وعداوت کو ختم کرنے پر کس قدر آمادہ ہیں۔ انہیں اس کا بھی احساس تھا کہ یمن سے شام تک بحر احمر کے ساحل سے ان کی جو تجارتی شاہراہ گزرتی ہے۔ اس شاہراہ کے اعتبار سے مدینہ فوجی اہمیت کے کس قدر حساس اور نازک مقام پر واقع ہے۔ درآں حالیکہ ملک شام سے صرف مکہ والوں کی سالانہ تجارت ڈھائی لاکھ دینار سونے کے تناسب سے ہوا کرتی تھی۔ اہل ِ طائف وغیرہ کی تجارت اس کے علاوہ تھی اور معلوم ہے کہ اس تجارت کا سارا دار ومدار اس پر تھا کہ یہ راستہ پُر امن رہے۔ ان تفصیلات سے بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے کہ یثرب میں اسلامی دعوت کے جڑ پکڑنے اور اہل مکہ کے خلاف اہل یثرب کے صف آرا ہونے کی صورت میں مکے والوں کے لیے کتنے خطرات تھے۔ چونکہ مشرکین کو اس گھمبیر خطرے کا پورا پورا احساس تھا ، جو ان کے وجود کے لیے چیلنج بن رہا تھا۔ اس لیے انہوں نے اس خطرے کا کامیاب ترین علاج سوچنا شروع کیا اور معلوم ہے کہ اس خطرے کی اصل بنیاد دعوتِ اسلام کے علمبردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ مشرکین نے اس مقصد کے لیے بیعتِ عقبہ کبریٰ کے تقریباً ڈھائی مہینہ بعد ۲۶؍ صفر ۱۴ نبوت مطابق ۱۲/ ستمبر ۶۲۲ یوم جمعرات [1]کو دن کے پہلے پہر 2[2]مکے کی پارلیمنٹ دار الندوہ میں تاریخ کا سب سے خطرناک اجتماع
Flag Counter