Maktaba Wahhabi

863 - 644
میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھا۔ سر اٹھا یا تو کیا دیکھتا ہوں کہ لوگوں کے پاؤں نظر آرہے ہیں۔ میں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اگر ان میں سے کوئی شخص محض اپنی نگاہ نیچی کردے تو ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ابوبکر ! خاموش رہو (ہم ) دوہیں جن کا تیسرا اللہ ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں : ((ما ظنک یا أبا بکر باثنین اللّٰه ثالثھما)) [1] ’’ ابوبکر ! ایسے دوآدمیوں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے۔ جن کا تیسرا اللہ ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک معجزہ تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرف فرمایا، چنانچہ تلاش کرنے والے اس وقت واپس پلٹ گئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان اور ان کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ باقی نہ رہ گیا تھا۔ مدینہ کی راہ میں: جب جستجو کی آگ بجھ گئی۔ تلاش کی تگ ودو رک گئی اور تین روز کی مسلسل اور بے نتیجہ دوڑ دھوپ کے بعد قریش کے جوش وجذبات سرد پڑ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے لیے نکلنے کا عزم فرمایا۔ عبد اللہ بن اریقط لَیْثی سے ، جو صحرائی اور بیابانی راستوں کا ماہر تھا، پہلے ہی اجرت پر مدینہ پہنچانے کا معاملہ طے ہو چکا تھا۔ یہ شخص ابھی قریش ہی کے دین پر تھا لیکن قابل اطمینان تھا۔ اس لیے سواریاں اس کے حوالے کردی گئی تھیں اور طے ہواتھا کہ تین راتیں گزر جانے کے بعد وہ دونوں سواریاں لے کر غار ثور پہنچ جائے گا۔ چنانچہ جب دوشنبہ کی رات جو ربیع الاول ۱ ھ کی چاند رات تھی (مطابق ۱۶؍ستمبر ۶۲۲ ء) عبد اللہ بن اریقط سواریاں لے کر آگیا اور اسی مو قع پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں افضل ترین اونٹنی پیش کرتے ہوئے گزارش کی کہ آپ میری ان دوسواریوں میں سے ایک قبول فرمالیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ قیمۃً لوں گا ۔‘‘ ادھر اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا بھی زاد سفر لے کر آئیں۔ مگر اس میں لٹکانے والا بندھن لگانا بھول گئیں۔ جب روانگی کا وقت آیا اور حضرت اسماء نے توشہ لٹکانا چاہا تو دیکھا کہ اس میں بندھن ہی نہیں
Flag Counter