Maktaba Wahhabi

897 - 644
جب یہ خط عبد اللہ بن اُبی اور اس کے بت پرست رفقاء کو موصول ہو ا تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا : ’’قریش کی دھمکی تم لوگوں پر بہت گہرا اثر کر گئی ہے تم خود اپنے آپ کو جتنا نقصان پہنچادینا چاہتے ہو قریش اس سے زیادہ تم کو نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے۔ تم اپنے بیٹو ں اور بھائیوں سے خود ہی لڑنا چاہتے ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر لوگ بکھر گئے۔ [1] اس وقت تو عبد اللہ بن اُبی جنگ کے ارادے سے باز آگیا کیونکہ اس کے ساتھی ڈھیلے پڑ گئے تھے یا بات ان کی سمجھ میں آگئی تھی لیکن حقیقت میں قریش کے ساتھ اس کے روابط درپردہ قائم رہے کیونکہ مسلمان اور مشرکین کے درمیان شَر وفساد کا کوئی موقع وہ ہاتھ سے جانے نہ دینا چاہتا تھا۔ پھر اس نے اپنے ساتھ یہود کو بھی ساٹ رکھا تھا تاکہ اس معاہدے میں ان سے بھی مدد حاصل کرے ، لیکن وہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حکمت تھی جو رہ رہ کر شَرّوفساد کی بھڑ کنے والی آگ بجھا دیا کرتی تھی۔ [2] مسلمانوں پر مسجد حرام کا دروازہ بند کیے جانے کا اعلان: اس کے بعد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کے لیے مکہ گئے اور اُمَیّہ بن خلف کے مہمان ہوئے۔ انہوں نے اُمیہ سے کہا : ’’میرے لیے کوئی خلوت کا وقت دیکھو ذرا میں بیت اللہ کا طواف کر لوں۔‘‘ اُمیّہ دوپہر کے قریب انہیں لے کر نکلا تو ابوجہل سے ملاقات ہوگئی۔ اس نے (اُمیہ کو مخاطب کرکے ) کہا : ابوصفوان تمہارے ساتھ یہ کون ہے ؟ اُمیہ نے کہا: یہ سعد ہیں۔ ابوجہل نے سعد کو مخاطب کرکے کہا: ’’اچھا ! میں دیکھ رہا ہوں کہ تم بڑے امن واطمینان سے طواف کررہے ہو حالانکہ تم لوگوں نے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے اور یہ زعم رکھتے ہو کہ ان کی نصرت واعانت بھی کرو گے۔ سنو ! اللہ کی قسم! اگر تم ابوصفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے گھر سلامت پلٹ کر نہ جاسکتے تھے۔‘‘ اس پر حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بلند آواز میں کہا :’’سن ! اللہ کی قسم اگر تو نے مجھ کو اس سے روکا تو میں تجھے ایسی چیز سے روک دوں گا جو تجھ پر اس سے بھی زیادہ گراں ہوگی۔‘‘ (یعنی اہل مدینہ کے پاس سے گزرنے والا تیرا۔ (تجارتی ) راستہ ) [3]
Flag Counter