Maktaba Wahhabi

913 - 644
قبائل بنو بکر کا مسئلہ: جب مکی لشکر روانگی کے لیے تیار ہو گیا تو قریش کو یاد آیا کہ قبائل بنوبکر سے ان کی دشمنی اور جنگ چل رہی ہے، اس لیے انہیں خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قبائل پیچھے سے حملہ نہ کردیں اور اس طرح وہ دشمنوں کے بیچ میں نہ گھر جائیں۔ قریب تھا کہ یہ خیال قریش کو ان کے ارادۂ جنگ سے روک دے ، لیکن عین اسی وقت ابلیس لعین بنو کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک بن جعشم مدلجی کی شکل میں نمودار ہوا اور بولا :’’میں بھی تمہارا رفیق کا رہوں اور اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ بنو کنانہ تمہارے پیچھے کوئی ناگوار کام نہ کریں گے۔‘‘ جیش مکہ کی روانگی: اس ضمانت کے بعد اہلِ مکہ اپنے گھروں سے نکل پڑے اور جیسا کہ اللہ کا ارشاد ہے: ’’اِ تراتے ہوئے، لوگوں کو اپنی شان دکھاتے ہوئے ، اور اللہ کی راہ سے روکتے ہوئے ‘‘،مدینہ کی جانب روانہ ہوئے۔جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد ہے :’’اپنی دھارا ور ہتھیار لے کر ، اللہ سے خار کھاتے ہوئے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خار کھاتے ہوئے ، جوشِ انتقام سے چور اور جذبۂ حمیت وغضب سے مخمور ، اس پر کچکچائے ہوئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہ نے اہل ِ مکہ کے قافلوں پر آنکھ اٹھانے کی جرأت کیسے کی ؟ بہر حال یہ لوگ نہایت تیز رفتاری سے شمال کے رخ پر بدر کی جانب چلے جارہے تھے کہ وادی عسفان اور قدید سے گزرکر جحفہ پہنچے تو ابو سفیان کا ایک نیا پیغام موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ لوگ اپنے قافلے ، اپنے آدمیوں اور اپنے اموال کی حفاظت کی غرض سے نکلے ہیں اور چونکہ اللہ نے ان سب کو بچا لیا ہے، لہٰذا اب واپس چلے جائیے۔ قافلہ بچ نکلا : ابو سفیان کے بچ نکلنے کی تفصیل یہ ہے کہ وہ شام سے کاروانی شاہراہ پر چلا تو آرہا تھا لیکن مسلسل چوکنا اور بیدار تھا۔ اس نے اپنی فراہمی اطلاعات کی کوشش بھی دو چند کر رکھی تھیں۔ جب وہ بدر کے قریب پہنچا تو خود قافلے سے آگے جاکر مجدی بن عمرو سے ملاقات کی اور اس سے لشکر ِ مدینہ کی بابت دریافت کیا۔ مجدی نے کہا :’’میں نے کوئی خلافِ معمول آدمی تو نہیں دیکھا البتہ دوسوار دیکھے جنہوں نے ٹیلے کے پاس اپنے جانور بٹھائے۔ پھر اپنے مشکیز ے میں پانی بھر کر چلے گئے۔‘‘ ابو سفیان لپک کر وہاں پہنچا اور
Flag Counter