Maktaba Wahhabi

915 - 644
ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم راستے ہی میں تھے اور وادی ذفران سے گزررہے تھے قافلے اور لشکردونوں کے متعلق اطلاعات فراہم کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اطلاعات کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یقین کر لیا کہ اب ایک خون ریز ٹکراؤ کا وقت آگیا ہے اور ایک ایسا اقدام ناگزیر ہے جو شجاعت وبسالت اور جرأت وجسارت پر مبنی ہو۔ کیونکہ یہ بات قطعی تھی کہ اگر مکی لشکر کو اس علاقے میں یوں ہی دندناتا ہوا پھرتے دیا جاتا تو اس سے قریش کی فوجی ساکھ کو بڑی قوت پہنچ جاتی اور ان کی سیا سی بالادستی کا دائرہ دور تک پھیل جاتا۔ مسلمانوں کی آواز دب کر کمزور ہو جاتی اور اس کے بعد اسلامی دعوت کو ایک بے روح ڈھانچہ سمجھ کر اس علاقے کا ہرکس وناکس ، جو اپنے سینے میں اسلام کے خلاف کینہ وعداوت رکھتا تھا شر پر آمادہ ہوجاتا۔ پھر ان سب باتوں کے علاوہ آخر اس کی کیا ضمانت تھی کہ مکی لشکر مدینے کی جانب پیش قدمی نہیں کرے گا اور اس معرکہ کو مدینہ کی چہار دیواری تک منتقل کرکے مسلمانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر تباہ کرنے کی جرأت اور کوشش نہیں کرے گا ؟ جی ہاں ! اگر مدنی لشکر کی جانب سے ذرا بھی گریز کیا جاتا تو یہ سب کچھ ممکن تھا اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو مسلمانوں کی ہیبت وشہرت پر تو بہرحال اس کا نہایت بُرا اثر پڑتا۔ مجلس شوریٰ کاا جتماع: حالات کی اس اچانک اور پُر خطر تبدیلی کے پیش نظر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعلیٰ فوجی مجلس شوریٰ منعقد کی۔ جس میں درپیش صورتِ حال کا تذکرہ فرمایا اور کمانڈروں اور عام فوجیوں سے تبادلہ ٔ خیالات کیا۔ اس موقع پر ایک گروہ خون ریز ٹکراؤ کا نام سن کرکانپ اٹھا اور اس کا دل لرزنے اور دھڑکنے لگا۔ اسی گروہ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِنْ بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ ، يُجَادِلُونَكَ فِي الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَيَّنَ كَأَنَّمَا يُسَاقُونَ إِلَى الْمَوْتِ وَهُمْ يَنْظُرُونَ ﴾(۸: ۵، ۶) ’’جیسا کہ تجھے تیرے رب نے تیرے گھر سے حق کے ساتھ نکالا اور مومنین کا ایک گروہ ناگوار سمجھ رہا تھا۔ وہ تجھ سے حق کے بارے میں اس کے و اضح ہوچکنے کے بعد جھگڑرہے تھے گویا وہ آنکھوں دیکھتے موت کی طرف ہانکے جارہے ہیں۔ ‘‘ لیکن جہاں تک قائدین لشکر کا تعلق ہے توحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اُٹھے اور نہایت
Flag Counter