Maktaba Wahhabi

926 - 644
نے کہا : ہاں آپ لوگ شریف مدمقابل ہیں، اس کے بعد معرکہ آرائی ہوئی۔ حضرت عبیدہ نے ۔ جو سب سے معمر تھے ۔ عتبہ بن ربیعہ سے مقابلہ کیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے شیبہ سے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ولید سے۔[1] حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو اپنے اپنے مقابل کو جھٹ مارلیا لیکن حضرت عبیدہ اور ان کے مدّ ِ مقابل کے درمیان ایک ایک وار کا تبادلہ ہوااور دونوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو گہرا زخم لگایا۔ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اپنے اپنے شکار سے فارغ ہوکر آگئے ، آتے ہی عتبہ پر ٹوٹ پڑے ، اس کا کام تمام کیا اور حضرت عبیدہ کو اٹھا لائے۔ ان کا پاؤں کٹ گیا تھا اورآواز بند ہوگئی تھی جو مسلسل بند ہی رہی یہاں تک کہ جنگ کے چوتھے یا پانچویں دن جب مسلمان مدینہ واپس ہوتے ہوئے وادیٔ صفراء سے گزر رہے تھے ان کا انتقال ہوگیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ کی قسم کھاکر فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت ہمارے ہی بارے میں نازل ہوئی: ﴿هَذَانِ خَصْمَانِ اخْتَصَمُوا فِي رَبِّهِمْ [(۲۲: ۱۹) ’’یہ دو فریق ہیں جنہوں نے اپنے رب کے بارے میں جھگڑا کیا ہے۔‘‘ عام ہجوم: اس مبارزت کا انجام مشرکین کے لیے ایک برا آغاز تھا وہ ایک ہی جست میں اپنے تین بہترین شہ سوار وں اور کمانڈروں سے ہاتھ دھوبیٹھے تھے، اس لیے انہوں نے غیظ وغضب سے بے قابو ہو کر ایک آدمی کی طرح یکبار گی حملہ کردیا۔ دوسری طرف مسلمان اپنے رب سے نصرت اور مدد کی دعا کرنے اور اس کے حضور اخلاص و تضر ع اپنانے کے بعد اپنی اپنی جگہوں پر جمے اور دفاعی موقف اختیار کیے مشرکین کے تابڑ توڑ حملوں کو روک رہے تھے اور انہیں خاصا نقصان پہنچارہے تھے۔ زبان پر أحد أحد کا کلمہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا: ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفیں درست کرکے واپس آتے ہی اپنے پاک پروردگار سے نصرت ومدد کا وعدہ پورا کرنے کی دعا مانگنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا یہ تھی : ((اللّٰہم انجز لی ما وعدتنی، اللّٰہم أنشدک عہدک ووعدک)) ’’اے اللہ ! تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا فرمادے۔ اے اللہ ! میں تجھ
Flag Counter