Maktaba Wahhabi

943 - 644
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹ کر مار ہی ڈالاتھا۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا تو کہنے لگا: ’’اے محمد ! بچوں کے لیے کون ہے ؟‘‘ آپ نے فرمایا : آگ [1]1 اس کے بعد حضرت عاصم بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے ۔ اور کہا جاتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ۔ اس کی گردن ماردی۔ جنگی نقطہ نظر سے ان دونوں طاغوتوں کا قتل کیا جانا ضروری تھا کیونکہ یہ صرف جنگی قیدی نہ تھے بلکہ جدید اصطلاح کی روسے جنگی مجرم بھی تھے۔ تہنیت کے وفود: اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقامِ رَوحا ء پہنچے تو ان مسلمان سربراہوں سے ملاقات ہوئی جو دونوں قاصدوں سے فتح کی بشارت سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح کی مبارک باد پیش کرنے کے لیے مدینے سے نکل پڑے تھے۔ جب انہوں نے مبارک پیش کی تو حضرت سلمہ بن سلامہ رضی اللہ عنہ نے کہا :’’ آپ لوگ ہمیں کاہے کی مبارک باد دے رہے ہیں ہمارا ٹکراؤ تو اللہ کی قسم ! گنجے سر کے بوڑھوں سے ہوا تھا جو اونٹ جیسے تھے۔‘‘ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکرا کر فرمایا : بھتیجے! یہی لوگ سر برآوردگانِ قوم تھے۔ اس کے بعد حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ عرض پر داز ہوئے :’’یارسول اللہ!(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کی حمد ہے کہ اس نے آپ کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی۔ واللہ ! میں یہ سمجھتے ہوئے بدر سے پیچھے نہ رہا تھا کہ آپ کا ٹکراؤ دشمن سے ہوگا ، میں تو سمجھ رہا تھا کہ بس قافلے کا معاملہ ہے ، اور اگر میں یہ سمجھتا کہ دشمن سے سابقہ پڑے گا تو میں پیچھے نہ رہتا۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ سچ کہتے ہو۔‘‘ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منور ہ میں اس طرح مظفر ومنصور داخل ہوئے کہ شہر اور گرد وپیش کے سارے دشمنوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دھاک بیٹھ چکی تھی۔ اس فتح کے اثر سے مدینے کے بہت سے لوگ حلقۂ بگوش اسلام ہوئے اور اسی موقع پر عبداللہ بن اُبی اور اس کے ساتھیوں نے بھی دکھاوے کے لیے اسلام قبول کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کے ایک دن بعد قیدیوں کی آمد آمد ہوئی۔ آپ نے انہیں
Flag Counter