Maktaba Wahhabi

954 - 644
درمیان حائل ہے۔ عمیر نے کہا :’’میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ہمارے پاس آسمان کی جو خبریں لاتے تھے ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوتی تھی ، اسے ہم جھٹلادیا کرتے تھے لیکن یہ تو ایسا معاملہ ہے جس میں میرے اور صفوان کے سوا کوئی موجود ہی نہ تھا۔ اس لیے واللہ مجھے یقین ہے کہ یہ بات اللہ کے سوا اور کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک نہیں پہنچائی۔ پس اللہ کی حمد ہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت دی اور اس مقام تک ہانک کر پہنچایا۔‘‘ پھر عمیر نے کلمۂ حق کی شہادت دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے فرمایا : ’’اپنے بھائی کو دین سمجھاؤ ، قرآن پڑھا ؤ اور اس کے قیدی کو آزاد کردو۔‘‘ ادھر صفوان لوگوں سے کہتا پھر رہاتھا کہ یہ خوشخبری سن لو کہ چند ہی دنوں میں ایک ایسا واقعہ پیش آئے گا جو بدر کے مصائب بھلوادے گا۔ ساتھ ہی وہ آنے جانے والوں سے عمیر رضی اللہ عنہ کی بابت پوچھتا بھی رہتا تھا۔ بالآخر اسے ایک سوار نے بتایا کہ عمیر مسلمان ہوچکا ہے۔ یہ سن کر صفوان نے قسم کھائی کہ اس سے کبھی بات نہ کرے گا اور نہ کبھی اسے نفع پہنچائے گا۔ ادھر عمیر نے اسلام سیکھ کر مکے کی راہ لی اور وہیں مقیم رہ کر اسلام کی دعوت دینی شروع کی۔ ان کے ہاتھ پر بہت سے لوگ مسلمان ہوئے۔ [1] ۳۔ غزوۂ بنی قینقاع: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ تشریف لانے کے بعد یہود کے ساتھ جو معاہدہ فرمایا تھا اس کی دفعا ت پچھلے صفحات میں ذکر کی جاچکی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری کوشش اور خواہش تھی کہ اس معاہدے میں جو کچھ طے پا گیا ہے وہ نافذ رہے ، چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جو اس معاہدے کی عبارت کے کسی ایک حرف کے بھی خلاف ہو۔ لیکن یہود جن کی تاریخ غدر وخیانت اور عہد شکنی سے پُر ہے وہ بہت جلد اپنے قدیم مزاج کی طرف پلٹ گئے۔اورمسلمانوں کی صفوں کے اندر دسیسہ کاری ، سازش ، لڑانے بھڑانے اور ہنگامے اور اضطراب بپا کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ لگے ہاتھوں ایک مثال بھی سنتے چلیے۔ یہود کی عیاری کا ایک نمونہ: ابن ِ اسحاق کا بیان ہے کہ ایک بوڑھا یہودی
Flag Counter