Maktaba Wahhabi

960 - 644
تین تلواریں اور تین نیزے اپنے لیے منتخب فرمائے اور مالِ غنیمت میں سے خمس بھی نکالا۔ غنائم جمع کرنے کاکام محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے انجام دیا۔ [1] ۴۔ غزوہ سویق: ایک طرف صفوان بن امیہ ، یہوداورمنافقین اپنی اپنی سازشوں میں مصروف تھے تو دوسری طرف ابوسفیان بھی کوئی ایسی کاروائی انجام دینے کی ادھیڑ بن میں تھا جس میں بار کم سے کم پڑے لیکن اثر نمایاں ہو۔ وہ ایسی کاروائی جلد از جلد انجام دے کر اپنی قوم کی آبرو کی حفاظت اور ان کی قوت کا اظہار کرنا چاہتا تھا۔ اس نے نذر مان رکھی تھی کہ جنابت کے سبب اس کے سر کو پانی نہ چھوسکے گا یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کرلے۔ چنانچہ وہ اپنی قسم پوری کرنے کے لیے دوسو سواروں کو لے کر روانہ ہوا اور وادیٔ قناۃ کے سرے پر واقع نیب نامی ایک پہاڑی کے دامن میں خیمہ زن ہوا۔مدینے سے اس کا فاصلہ کوئی بارہ میل ہے ، لیکن چونکہ ابو سفیان کو مدینے پر کھلم کھلا حملے کی ہمت نہ ہوئی اس لیے اس نے ایک ایسی کارروائی انجام دی جسے ڈاکہ زنی سے ملتی جلتی کارروائی کہا جاسکتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ وہ رات کی تاریکی میں اطرافِ مدینہ کے اندر داخل ہوا اور حیی بن اخطب کے پاس جاکر اس کا دروازہ کھلوایا۔ حیی نے انجام کے خوف سے انکار کردیا۔ ابو سفیان پلٹ کر بنونضیر کے ایک دوسرے سردار سلام مشکم کے پاس پہنچا جو بنو نضیر کا خزانچی بھی تھا۔ ابو سفیان نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ اس نے اجازت بھی دی اور مہمان نوازی بھی کی۔ خوراک کے علاوہ شراب بھی پلائی اور لوگوں کے پس پردہ حالات سے آگاہ بھی کیا۔ رات کے پچھلے پہر ابو سفیان وہاں سے نکل کر اپنے ساتھیوں میں پہنچا اور ان کا ایک دستہ بھیج کر مدینے کے اطراف میں عریض نامی ایک مقام پر حملہ کردیا۔ اس دستے نے وہاں کھجور کے کچھ درخت کاٹے اور جلائے اور ایک انصاری اور اس کے حلیف کو ان کے کھیت میں پاکر قتل کردیا اور تیزی سے مکہ واپس بھاگ نکلا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واردات کی خبر ملتے ہی تیز رفتاری سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا تعاقب کیا لیکن وہ اس سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بھاگے ، چنانچہ وہ لوگ تو دستیاب نہ ہوئے لیکن انہوں نے بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ستو ، توشے اور سازوسامان
Flag Counter