Maktaba Wahhabi

978 - 644
تھی ، دشمن کی طرف قدم بڑھایا۔ دشمن کا پڑاؤ آپ کے درمیان اور اُحد کے درمیان کئی سمت سے حائل تھا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کوئی آدمی ہے جو ہمیں دشمن کے پاس سے گزرے بغیر کسی قریبی راستے سے لے چلے۔ اس کے جواب میں ابو خَیْثَمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :’’یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم میں اس خدمت کے لیے حاضر ہوں۔‘‘ پھر انہوں نے ایک مختصر سا راستہ اختیار کیا جو مشرکین کے لشکر کو مغرب کی سمت چھوڑتا ہوا بنی حارثہ کے حرہ اور کھیتوں سے گزرتا تھا۔ اس راستے سے جاتے ہوئے لشکر کا گزر مربع بن قیظی کے باغ سے ہو ا۔ یہ شخص منافق بھی تھا اور نابینا بھی۔ اس نے لشکر کی آمد محسوس کی تو مسلمانوں کے چہروں پر دھول پھینکنے لگا اور کہنے لگا : اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں تو یادرکھیں کہ آپؐ کو میرے باغ میں آنے کی اجازت نہیں۔ لوگ اسے قتل کرنے کو لپکے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اسے قتل نہ کرو۔ یہ دل اور آنکھ دونوں کا اندھا ہے۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑ ھ کر وادی کے آخری سرے پر واقع اُحد پہاڑ کی گھاٹی میں نزول فرمایا اور وہیں اپنے لشکرکاکیمپ لگوایا۔ سامنے مدینہ تھا اور پیچھے اُحد کا بلند وبالا پہاڑ ، اس طرح دشمن کا لشکر مسلمانوں اور مدینے کے درمیان حَدِّ فاصل بن گیا۔ دفاعی منصوبہ: یہاں پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کی ترتیب وتنظیم قائم کی، اور جنگی نقطۂ نظر سے اسے کئی صفوں میں تقسیم فرمایا۔ ماہر تیر اندازوں کا ایک دستہ بھی منتخب کیا جو پچاس مردان جنگی پر مشتمل تھا۔ ان کی کمان حضرت عبد اللہ بن جبیر بن نعمان انصاری دَوْسی بدر ی رضی اللہ عنہ کو سپر د کی، اور انہیں وادی قناۃ کے جنوبی کنارے پر واقع ایک چھوٹی سی پہاڑی پر جو اسلامی لشکر کے کیمپ سے کوئی ڈیڑھ سو میٹر جنوب مشرق میں واقع ہے اور اب جبل رماۃ کے نام سے مشہور ہے ، تعینات فرمایا۔ اس کا مقصد ان کلمات سے واضح ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تیر اندازوں کو ہدایت دیتے ہوئے ارشاد فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کمانڈر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : ’’شہسواروں کو تیر مار کر ہم سے دور رکھو۔ وہ پیچھے سے ہم پر چڑھ نہ آئیں۔ ہم جیتیں یا ہاریں تم اپنی جگہ رہنا۔ تمہاری طرف سے ہم پر حملہ نہ ہونے پائے ۔‘‘[1] پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیراندازوں کو مخاطب کر کے فرمایا:
Flag Counter