Maktaba Wahhabi

987 - 644
کی طرح چھپ چھپا کر بے خبری کے عالم میں مارا گیا۔ اللہ کے شیر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت: حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا قاتل وحشی بن حرب تھا۔ ہم ان کی شہادت کا واقعہ اسی کی زبانی نقل کرتے ہیں۔ اس کا بیان ہے کہ میں جُبیر بن مُطْعم کا غلام تھا۔ اور ان کا چچا طُعیمہ بن عِدِی جنگ بدر میں مارا گیا تھا۔ جب قریش جنگ احد پر روانہ ہونے لگے تو جبیر بن مطعم نے مجھ سے کہا : اگر تم محمدؐ کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کو میرے چچا کے بدلے قتل کردو تو تم آزاد ہو۔ وحشی کا بیان ہے کہ (اس پیش کش کے نتیجے میں ) میں بھی لوگوں کے ساتھ روانہ ہوا۔ میں حبشی آدمی تھا۔اور حبشیوں کی طرح نیزہ پھینکنے میں ماہر تھا۔ نشانہ کم ہی چوُکتا تھا۔ جب لوگو ں میں جنگ چھڑ گئی تو میں نکل کر حمزہ کو دیکھنے لگا۔ میری نگاہیں انہی کی تلاش میں تھیں۔ بالآخر میں نے انہیں لوگوں کی پہنائی میں دیکھ لیا۔ وہ خاکستری اونٹ معلوم ہورہے تھے۔ لوگوں کو درہم برہم کرتے جارہے تھے، ان کے سامنے کو ئی چیز ٹک نہیں پاتی تھی۔ واللہ ! میں ابھی ان کے ارادے سے تیار ہی ہورہا تھا اور ایک درخت یا پتھر کی اوٹ میں چھپ کر انہیں قریب آنے کا موقع دیناچاہتا تھا کہ اتنے میں سباع بن عبد العزیٰ مجھ سے آگے بڑھ کر ان کے پاس جاپہنچا۔ حمزہ رضی اللہ عنہ نے اسے للکارتے ہوئے کہا : او شرمگاہ کی چمڑی کا ٹنے والی کے بیٹے ! یہ لے۔ اور ساتھ ہی اس زور کی تلوار ماری کہ گویا اس کا سر تھا ہی نہیں۔ وحشی کا بیان ہے کہ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا نیزہ تولا اور جب میری مرضی کے مطابق ہوگیا تو ان کی طرف اچھال دیا۔ نیزہ ناف کے نیچے لگا اور دونوں پاؤں کے بیچ سے پار ہو گیا۔ انہوں نے میری طرف اٹھنا چاہا۔ لیکن مغلوب ہوگئے میں نے ان کو اسی حال میں چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ اس کے بعد میں نے ان کے پاس جاکر اپنا نیزہ نکال لیا۔ اور لشکر میں واپس جاکر بیٹھ گیا۔ (میرا کام ہوچکا تھا ) مجھے ان کے سوا کسی اور سے سروکار نہ تھا۔ میں نے انہیں محض اس لیے قتل کیا تھا کہ آزاد ہو جاؤں۔ چنانچہ جب مکہ آیا تو مجھے آزادی مل گئی۔[1]
Flag Counter