Maktaba Wahhabi

988 - 644
مسلمانوں کی بالادستی: اللہ کے شیر اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شیر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے نتیجے میں مسلمانوں کو جو سنگین خسارہ اور ناقابل ِ تلافی نقصان پہنچا اس کے باوجود جنگ میں مسلمانوں ہی کا پلہ بھاری رہا۔ حضرت ابو بکر وعمر ، علی وزبیر ، مصعب بن عُمیر ، طلحہ بن عبید اللہ ، عبد اللہ بن جحش ، سعد بن معاذ ، سعد بن عبادہ ، سعد بن ربیع اور نضر بن انس وغیرہم رضی اللہ عنہم نے ایسی پامردی وجانبازی سے لڑائی لڑی کہ مشرکین کے چھکے چھوٹ گئے۔حوصلے ٹوٹ گئے اور ان کی قوتِ بازو جواب دے گئی۔ عورت کی آغوش سے تلوار کی دھار پر: اور آیئے ! ذرا ادھر دیکھیں۔ اپنی جان فروش شہبازوں میں ایک اور بزرگ حضرت حَنْظَلۃ الغَسیل رضی اللہ عنہ نظر آرہے ہیں۔ جو آج ایک نرالی شان سے میدانِ جنگ میں تشریف لا ئے ہیں ۔ آپ اسی ابو عامر راہب کے بیٹے ہیں جسے بعد میں فاسق کے نام سے شہرت ملی۔ اور جس کا ذکر ہم پچھلے صفحات میں کر چکے ہیں۔ حضرت حنظلہ نے ابھی نئی نئی شادی کی تھی۔ جنگ کی منادی ہوئی تو وہ بیوی سے ہم آغوش تھے۔ آواز سنتے ہی آغوش سے نکل کر جہاد کے لیے رواں دواں ہوگئے۔ اور جب مشرکین کے ساتھ میدانِ کارزار گرم ہوا تو ان کی صفیں چیر تے پھاڑتے ان کے سپہ سالار ابو سفیان تک جاپہنچے اور قریب تھاکہ اس کاکام تمام کردیتے۔ مگر اللہ نے خود ان کے لیے شہادت مقدر کررکھی تھی۔ چنانچہ انہوں نے جوں ہی ابو سفیان کو نشانے پر لے کر تلوار بلند کی شَدّاد بن اوس نے دیکھ لیا اور جھٹ حملہ کردیا جس سے خود حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے۔ تیر اندازوں کاکارنامہ : جبل رماۃ پر جن تیر اندازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین فرمایا تھا انہوں نے بھی جنگ کی رفتار مسلمانوں کے موافق چلانے میں بڑا اہم رول ادا کیا۔ مکی شہسواروں نے خالد بن ولید کی قیادت میں اور ابو عامر فاسق کی مدد سے اسلامی فوج کا بایا ں بازو توڑ کر مسلمانوں کی پشت تک پہنچنے اور ان کی صفوں میں کھلبلی مچاکر بھر پور شکست سے دوچار کرنے کے لیے تین بار پُر زور حملے کیے۔ لیکن مسلمان تیر اندازوں نے انہیں اس طرح تیروں سے چھلنی کیا کہ ان کے تینوں حملے ناکام ہو گئے۔[1]
Flag Counter