Maktaba Wahhabi

143 - 413
’’ یقینا ان کے باپ نے خدمت کی غرض سے انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور پیش کیا۔‘‘ انہوں نے بیان کیا :’’ میرے پاس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گزرے اور میں تب نماز ادا کر چکا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قدم سے مجھے ٹھوکر لگا کر فرمایا:’’ کیا میں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے کی طرف تمہاری راہنمائی نہ کروں ؟‘‘ میں نے عرض کیا :’’ کیوں نہیں ‘‘[ضرور فرمائیں ] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ۔‘‘ اس حدیث شریف سے یہ واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کے وقت حضرت قیس رضی اللہ عنہ کو اپنے قدم مبارک سے ٹھوکر لگائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طرزِ عمل اظہار انس و مودت اور تنبیہ کے لیے تھا۔ علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے:’’فَضَرَبَنِيْ بِرِجْلِہٖ اَيْ لِلتَّـنْـبِـیْـہِ‘‘ پس آپ نے مجھے اپنے قدم سے تنبیہ کی غرض سے ٹھوکر لگائی۔‘‘[1] حدیث شریف میں فائدہ دیگر: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلوب استفہام استعمال کرتے ہوئے فرمایا:’’ [ کیا میں جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے کی طرف تمہاری راہ نمائی نہ کروں ؟] تا کہ حضرت قیس رضی اللہ عنہ بتلائی جانے والی بات کے سننے سمجھنے کے لیے سرا پا شوق بن جائیں۔[2] رب ذوالجلال کی طرف سے لا تعداد اور دائمی درودو سلام ہوں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر۔وہ اپنے شاگردوں کو فیض یاب کرنے کے لیے کس قدر خواہش مند تھے! اور ہم ناکاروں کی کیفیت کیا ہے؟ إِلی اللّٰه المشتکیاے رب حيُّ وَ قَیُّوْمُ ہمیں سلسلہ تعلیم میں اور زندگی کے ہر شعبے میں اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلا دے۔آمین یا رب العالمین۔
Flag Counter