Maktaba Wahhabi

181 - 413
خطوط کھینچے، پھر فرمایا:’’یہ راہیں ہیں۔‘‘یزید[1] نے بیان کیا:’’جدا جدا‘‘ ان میں سے ہرراہ پر شیطان بلا رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے [ قرآن کریم کا یہ حصہ] پڑھا۔ [جس کا ترجمہ ہے]: ’’ اور بلا شبہ یہ میری راہ ہے سیدھی، سو تم ا س پر چلو اور دوسروں کی راہوں پر مت چلو۔ وہ تمہیں اس [ اللہ تعالیٰ] کی راہ سے جدا کردیں گے۔‘‘ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقصود کو سمجھانے کی غرض سے لکیریں کھینچیں۔ امام طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول: ’’ہمارے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط بنایا‘‘کی شرح میں تحریر کیاہے: ’’ أَيْ خَطَّ لِأَجلِنَا تَقْرِیْبًا وَتَفْھِیْمًا لَنَا، لِأَنَّ التَّصْوِیْرَ وَالتَّمْثِیْلَ إِنَّمَا یُسْلَکُ وَیُصَارُ إِلَیْہِ لِإِبْرَازِ الْمَعَانِي الْمُحْتَجَبَۃِ، وَرَفْعِ الْأَسْتَارِ عَنِ الرُّمُوزِ الْمَکْنُوْنَۃِ، لِتَظْھَرَ فِي صُوَرَۃِ الْمُشَاھَدِ الْمَحْسُوْسِ، فَیُسَاعِدُ فِیْہ الوَھْمُ الْعَقْلَ، وَیُصَالِحُہ عَلَیْہِ‘‘۔[2] ’’ یعنی بات کو ہمارے ذہن نشین کروانے کے لیے خط کھینچا، کیونکہ مخفی معانی کو اجاگر کرنے اور پوشیدہ رموز کی نقاب کشائی کی غرض سے تصویرو تمثیل استعمال کی جاتی ہے،تا کہ وہ مرئی اور محسوس چیزوں کی طرح آشکارا ہو جائیں اور [بات سمجھنے میں ]انسانی خیال، عقل کی مدد کرے۔‘‘ ۲۔لمبی اُمیدوں اور قربِ موت کے لیے خطوط کھینچنا: امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے انہوں نے بیان کیا :
Flag Counter