Maktaba Wahhabi

259 - 413
’’ایک بدو نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:’’ مجھے جنت میں داخل کر دینے والا عمل سکھا دیجیے!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’بات تو اگرچہ تمہاری مختصر ہے،لیکن مطلوب بہت بڑا ہے، جان آزاد کرو اور گردن چھڑواؤ۔‘‘ اس نے عرض کیا:’’ کیا یہ دونوں [بیان کردہ اعمال]ایک ہی نہیں ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ نہیں، جان آزاد کرنا یہ ہے کہ تو تنہا اس کو آزاد کرے اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ اس کی قیمت کی ادائیگی میں اعانت کرے اور بہت زیادہ دودھ دینے والی اونٹنی یا بکری کا عطیہ دینا اور ظالم قرابت دار سے اچھا سلوک کرنا۔ پس اگر اس کی طاقت نہ ہو،تو بھوکے کو کھلاؤ اور پیاسے کو پلاؤ اور نیکی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو اور اگر اس کی [بھی] استطاعت نہ ہو تو خیر کے علاوہ اپنی زبان کو روکے رکھو۔‘‘ اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بدو کے عمدہ سو ال کی بایں الفاظ تعریف فرمائی: ’’ لَئِنْ کُنْتَ أَقْصَرْتَ الْخُطْبَۃَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَۃَ‘‘۔ ’’تمہاری بات تو اگرچہ مختصر ہے،لیکن مطلوب بہت بڑا ہے۔‘‘ حدیث شریف میں دیگر فوائد: حدیث شریف میں دیگر فوائد میں سے دو درج ذیل ہیں : ٭ بدو نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ جواب کے متعلق اپنے اشکال کا اظہار کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفا نہ ہوئے، بلکہ اس کے اشکال کو دور فرمایا۔[1]
Flag Counter