آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یتیم بچے کو اپنے مزید قریب ہونے کا شرف بخشنا، پھر [اے میرے چھوٹے بیٹے]کی پیار بھری ندا سے بلانا،لطف و عنایت کو دو چند اور دوبالا کرتے ہیں اور شفقت و عنایت سے بھر پور اس تعلیم کا بچے پر کیا اثر ہوا؟
حضرت عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہما نے خود بیان فرمایا:
’’فَمَا زَالَتْ تِلْکَ طِعْمَتِيْ بَعْدُ۔‘‘[1]
’’اس کے بعد میر ے کھانے کا انداز یہی رہا۔‘‘
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے:
’’بِکَسْرِ الطَّائِ أَيْ صِفَۃُ أکلي، أَيْ لَزِمْتُ ذَلِکَ، وَصَارَ عَادَۃً لِيْ۔‘‘[2]
’’ طعمتی‘‘ طاء کی زیر کے ساتھ، یعنی کھانے کا طریقہ، یعنی میں اس طریقہ کے ساتھ چمٹ گیا اور وہ میری عادت بن گیا۔‘‘
۲۔ نماز میں بولنے والے کے لیے تعلیم میں نرمی:
امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
’’ بَیْنَا أَنَا أُصَلِّيْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم إِذْ عَطَسَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقُلْتُ:’’ یَرْحَمُکَ اللّٰہُ‘‘۔
فَرَمَانِي الْقَوْمُ بِأَبْصَارِھِمْ، فَقُلْتُ:’’ وَاثُکْلَ أُمِّیَاہُ! مَا شَاْنُکُمْ تَنْظُرُوْنَ إِلَيَّ؟‘‘۔
|