Maktaba Wahhabi

361 - 413
فرماتے رہے کہ:’’ [اور ] پیو۔‘‘ آخر مجھے کہنا پڑا:’’ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اب اس کے لیے بالکل گنجائش نہیں۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ مجھے دے دو۔‘‘ میں نے پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی، بسم اللہ پڑھی اور باقی ماندہ (دودھ) پی لیا۔‘‘ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقیر طلبہ کو اپنے نفس اور اہل پر مقدم فرمایا۔ دودھ پہلے اہل صفہ کو پلایا، پھر بچا ہوا خود پیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے فوائد حدیث بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ وَفِیْہِ کَرَمُ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَإِیْثَارُہٗ عَلَی نَفْسِہٖ وَأَھْلِہٖ وَخَادِمِہٖ۔‘‘[1] ’’ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت اور اپنی جان، اہل اور خادم پر [فقراء کو] ترجیح دینا ہے۔‘‘ حدیث شریف میں دیگر فوائد: حدیث شریف میں دیگر متعدد فوائد میں سے پانچ درج ذیل ہیں : ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے شاگرد سے خندہ روئی اور بشاشت سے گفتگو فرمانا۔ طلبہ اور خصوصاً غریب اور پردیسی طلبہ پر اس کا عظیم اثر چنداں محتاج بیان نہیں۔ ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے شاگرد کی حالت و کیفیت پر توجہ فرمانا۔ ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم فراست کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سوال کو سنتے اور انہیں دیکھتے ہی ان کی اصل کیفیت بھانپ گئے۔ ٭ ایک ہی قصہ میں شاگرد کو چار مرتبہ اس کی کنیت سے مخاطب کرنا۔ معلِّم کی زبان سے ایک ہی دفعہ کنیّت کے ساتھ خطاب شاگرد کے لیے کچھ کم خوشی کا سبب نہیں
Flag Counter