Maktaba Wahhabi

366 - 413
اور نہ ہی صفین کی رات۔‘‘ اس حدیث شریف میں ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عزیز ترین بیٹی فاطمۃ الزہرااور ان کے شوہر محترم اپنے چچا زاد بھائی سیدنا علی رضی اللہ عنہما پر اپنے فقیر شاگردوں کو ترجیح دی۔ ان کی شدید حاجت کے باوجود انہیں خادم نہ دیا، بلکہ اس کو فروخت کرکے اس کی رقم غریب طلبہ پر خرچ کرنے کے ارادے کا اظہار فرمایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسی مضمون کی حدیث کو اپنی کتاب میں روایت کیا ہے اور اس کا عنوان بایں الفاظ تحریر کیا ہے: [بَابُ الدَّلِیْلِ عَلَی أَنَّ الْخُمُسَ لِنَوائِبِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَالْمَسَاکِیْنِ، وَإِیْثَارِ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَھْلَ الصُّفَّۃِ وَالْأَرَامِلِ حِیْنَ سَأَلَتْہُ فَاطِمَۃُ رضی اللّٰه عنہا، وَشَکَتْ إِلَیْہِ الطَّحْنَ وَالرَّحَی أَنْ یُخْدِمَھَا مِنَ السَّبْي، فَوَکَلَھَا إِلَی اللّٰہِ]۔ [1] [ اس بات کی دلیل کے بارے میں باب کہ غنیمت کا پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ضروریات اور مساکین کے لیے ہے اور جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آٹا گوندھنے اور چکی پیسنے کی تکلیف کا ذکر کرکے قیدیوں میں سے خادم طلب کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل صفہ اور بیواؤں کو [ان پر] ترجیح دی اور ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا۔] حدیث شریف میں دیگر فوائد: اس حدیث شریف میں موجود دیگر متعدد فوائد میں سے پانچ درج ذیل ہیں : ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بغرض تعلیم اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لے جانا۔[2]
Flag Counter