علم کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی سے استفسار یا تو بتلائی جانے والی بات کی طرف بھر پور توجہ کی ترغیب دینے کی خاطر تھا،یا ان کے مقدارِ فہم اور مبلغِ علم کو جانچنے کی غرض سے تھا۔
٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شاگرد کے سینے میں ضرب لگانا۔ [1]اس بارے میں ملا علی القاریٔ رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا ہے:
’’ (فَضَرَبَ) أَي:النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم (فِيْ صَدْرِي) أَي:مُحَبَّۃً۔‘‘[2]
’’ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے میں ازراہِ محبت ضرب لگائی۔‘‘
۲۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کی عمدہ تلاوت کی تعریف:
امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا:
’’ قَالَ رَسُول اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم لِأَبِيْ مُوْسٰی:’’لَوْ رَأَیْتَنِيْ وَأَنَا أَسْتَمِعُ لِقِرَائَتِکَ الْبَارِحَۃَ! لَقَدْ أُوْتِیْتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِیْرِ آلِ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلاَمُ۔‘‘[3]
’’ اگر تم مجھے دیکھتے کہ میں گزشتہ شب تمہاری قراء ت توجہ سے سن رہا تھا۔ تمہیں تو آل داود علیہ السلام والی بہترین آواز دی گئی۔‘‘
شرح حدیث میں امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ رقم طراز ہیں :
’’ قَالَ الْعُلَمَائُ:’’ اَلْمُرَادُ بِالْمِزْمَارِ ھُنَا الصَّوْتُ الْحَسَنُ، وَأَصْلُ
|