Maktaba Wahhabi

409 - 413
’’ أَيْ لِیَعْلَمَ بِذٰلِکَ عُقْبَۃُ رضی اللّٰه عنہ أَنَّھُمَا مَعَ قِلَّۃِ حُرُوفِھِمَا تَقُوْمَانِ مَقَامَ السُّوْرَتَیْنِ الطَّوِیْلَتَیْنِ إِذِ الْمُعْتَادُ فِيْ صَلاَۃِ الْفَجْرِ کَانَ ھُوَ التَّطْوِیْلَ لِیَفْرَحَ بِھِمَا، وَیُعْطِیَھِمَا غَایَۃَ التَّعْظِیْمِ۔‘‘[1] ’’ یعنی تاکہ عقبہ رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوجائے کہ وہ دونوں سورتیں اپنے تھوڑے حروف کے باوجود دو لمبی سورتوں کے قائم مقام ہیں۔ کیونکہ فجر میں طویل قرأت کا معمول ہوتا ہے اور اس طرح عقبہ ان دونوں سورتوں [کے سیکھنے] پر خوش ہوجائیں اور ان کی کما حقہ تعظیم کریں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر میرے ماں باپ قربان ہوں ! اس پر بھی نہ رکے، بلکہ اپنے شاگرد کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا:’’ اے عقبہ! تم نے کیسے دیکھا؟ ‘‘ تاکہ وہ ان دونوں سورتوں کی قدر و منزلت کا مکمل طور پر ادراک کرلیں۔ حدیث شریف میں دیگر فوائد: حدیث شریف میں موجود دیگر فوائد میں سے چار مندرجہ ذیل ہیں : ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شاگرد کو اس کے نام کے ساتھ مخاطب کیا، اظہار انس و تعلق اور توجہ مبذول کروانے میں اس کی اہمیت محتاج بیان نہیں۔ [2] ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم کی ابتدا اسلوب استفہام سے فرمائی۔ توجہ مبذول کروانے میں اس کی اہمیت بھی ایک واضح حقیقت ہے۔ [3] ٭ دورانِ سفر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلسلۂ تعلیم کو جاری رکھا۔ [4]
Flag Counter