Maktaba Wahhabi

62 - 103
پہلی وجہ: 1۔رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے تو انہوں نے دنیا و آخرت میں عزت حاصل کی ہے۔ 2۔رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی کرنے والے دشمن، سو، جن کو جلدی موت کا شکار کر دیا گیا۔ وہ ان کیلئے ان کی زندگی سے بہتر ہے۔ اس لئے کہ اگر وہ زندہ رہتے تو ان کے فسق و فجور اور کفر و شرک کی وجہ سے آخرت میں ان کے عذاب میں اور اضافہ ہوتا۔ اس لئے کہ ان کی بدبختی کا فیصلہ ہو چکا تھا۔ لہٰذا ان کی موت کا جلدی فیصلہ کفر کی حالت میں ان کی لمبی عمروں سے بہتر تھا۔ 3۔ رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدۂ صلح کرنے والے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد، ذمہ داری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہء رحمت میں امن و راحت کے ساتھ زندگی بسر کی ہے۔ اور وہ اس عہد و پیمان کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑنے والوں کی نسبت کم تکلف دہ تھے۔ 4۔رہے منافق لوگ تو زبانوں سے ایمان کے اظہار سے انہیں مال و جان کی سلامتی اور احترام حاصل ہوا۔ اور وراثت وغیرہ کے سلسلہ میں اسلامی احکام کے اجراء سے انہیں امن و سکون حاصل ہوا۔ 5۔رہیں وہ امتیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دور تھیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی وجہ سے پوری روئے زمین کے لوگوں سے عذابِ عام اٹھا دیا۔ دوسری وجہ:آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کیلئے رحمت ثابت ہوئے۔مگر ایمانداروں نے شرحِ صدر سے اس رحمت کو قبول کیا تو انہوں نے دین و دنیا کا فائدہ اٹھایا۔ کفار نے اس رحمت کو ٹھکرا دیا اور قبول نہ کیا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کیلئے بھی رحمت ثابت ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک رحمت کا مقام 1۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَمَا اَرْسَلْنَاکَ اِلاَّ رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنِ﴾ (الاَنبیاء:106)۔ ’’اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے‘‘۔ 2۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’مجھے رحمت کے ساتھ بھیجا گیا ہے‘‘۔ (رواہ مسلم)۔ 3۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’میں بلاشبہ حقیقی رحمت ہوں‘‘۔ (رواہ الحاکم)۔ 4۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحمت نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا‘‘۔ (متفق علیہ)۔
Flag Counter