Maktaba Wahhabi

78 - 103
نتیجہ یہ ہے کہ مردوں کی دو حالتیں ہیں۔ ایک حالت مستحب ہے اور وہ ہے کہ تہبند کو نصف پنڈلیوں تک رکھا جائے۔ دوسری حالت جو زر کی ہے اور وہ یہ ہے کہ تہبند کو آدمی ٹخنوں تک لٹکا لے۔ پورے کلام کا مفہوم یہ ہے کہ کپڑے، پاجامے اور پینٹ کو تخنوں سے نیچے تک لٹکانا ناجائز ہے۔ 3۔سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر دو زرد رنگ زعفرانی کپڑے دیکھ کر فرمایا: ’’یہ کفار کے کپڑے ہیں لہٰذا انہیں مت پہنا کرو‘‘۔ (رواہ مسلم)۔ حدیث سے حاصل ہونے والا فائدہ 1۔مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ کفار کے سے کپڑے پہنے۔ اور ان کی طرح کی پوشاک پہن کر زینت حاصل کرے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جس شخص نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں شمار ہو گا‘‘۔ اکثر اسلامی ممالک میں کفار کے ساتھ مشابہت عام ہو چکی ہے۔ جیسے تنگ پتلون کا پہننا ہے۔ کوبوی اور شارلستون وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ میں نے ایک عالم کو سنا جو تنگ پتلون پہننے کے بارے میں ایک جوان کے سوال کا جواب دے رہے تھے۔ اس عالم نے اسے جواب دیا کہ تنگ پتلون پہننا حرامہے۔ اس لئے کہ وہ ستر کو ظاہر کر دیتی ہے۔ اور اس میں کفار کے ساتھ مشابہت بھی ہے۔ 2۔رہا سر کا لباس تو وہ تمام امتوں کا شعار ہے۔ بعض مسلمان اس میں بھی کفار سے مشابہت کرتے ہیں۔ اور وہ پینٹ پہنتے ہیں اور انہوں نے فوجیوں پر لازم کر دیا ہے۔ اور انہیں ایسی ٹوپی پہنا دی ہے جسے کفار پہنتے ہیں۔ اسے بعض دولت مند اور بعض حکومتی اہلکار دھوپ سے بچنے کے لئے پہنتے ہیں۔ اگر وہ سر کو لمبی رومی ٹوپی، پگڑی یا رومال سے ڈھانپ لیں تو ان کے سروں کے لئے زیادہ صحیح ہے۔ اس طرح کفار سے تشبہ بھی نہ ہو گا۔ یہ مشابہت اتنی عام ہو گئی ہے یہاں تک کہ لوگوں کو شعور ہی نہیں ہے کہ اس میں شریعت کی سخت مخالفت ہے۔ فانا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ہم کس طرح کفار سے جنگ کر سکتے ہیں جبکہ ہم ان کے لباس اور عادات میں ان سے مشابہت کرتے ہیں۔ ہم پر لازم تھا کہ نفع بخش میں ان کی تقلید کرتے جیسے ہوائی جہاز، ٹینک اور توپوں کی صنعت میں ان سے فنون حاصل کرتے جو ہمارے دین اور ہماری سرزمین کی حفاظت میں ہماری مدد کرتے۔
Flag Counter