Maktaba Wahhabi

87 - 103
تھے: بلال رضی اللہ عنہ نے ہاتھ پھیلا کر دکھایا۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ پھیلانے کے ساتھ جواب دیتے تھے)۔ (رواہ ابوداؤد والترمذی)۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جب کوئی شخص نماز پڑھنے والے کو سلام کہے تو وہ بغیر بولے اپنی دائیں ہتھیلی کو سیدھی پھیلا کر اشارے سے جواب دے اور قرآن پڑھنے والے، ذکر کرنے والے، مدرس پر اور مسجد میں داخل ہوتے وقت سلام کہنا بدرجہء اولیٰ بہتر ہے۔ 16۔سلام کہنا اہلِ جنت کی دعا ہے۔ (جب وہ آپس میں ملاقات کیا کریں گے)۔ 17۔السلام اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ میں سے ایک نام ہے۔ 18۔السلام کا معنی فریب، خیانت اور غداری سے کامل امن و سلامی ہے۔ 19۔السلام محبت کا راستہ، محب ایمان کا راستہ اور ایمان جنت کا راستہ ہے۔ ہاتھ چومے بغیر مصافحہ کرنا 1۔سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم مصافحہ کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: ’’جی ہاں‘‘۔ (رواہ البخاری)۔ 2۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جو بھی دو مسلمان آپس میں ملاقات کیوقت مصافحہ کرتے ہیں، ان کے جدا ہونے سے پہلے انہیں بخش دیا جاتا ہے‘‘۔ (رواہ ابوداؤد وغیرہ و حدیث حسن)۔ 3۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’کل تمہارے پاس ایسی قومیں آئیں گی جن کے دل اسلام کے لئے تم سے زیادہ نرم ہیں۔ (یعنی اہل یمن) پھر اشعری قبیلے کے لوگ آئے ان میں ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ جب وہ مدینے کے قریب آئے تو وہ درج ذیل رجزیہ شعر پڑھنے لگے: غداً نلقی الأحبۃ محمد و صحبۃ ’’کل ہم اپنے دوستوں محمد اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم سے ملاقات کریں گے‘‘ (کسی کی محبت میں کہے گئے یا جنگی اشعار کو رجزیہ اشعار کہتے ہیں۔ مترجم)۔ جب وہ آئے انہوں نے مصافحہ کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے مصافحہ کیا تھا۔ (رواہ احمد)۔ 4۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’مومن جب مومن سے مل کر اسے سلام کہتا ہے اور اس کا ہاتھ پکڑتا ہے، مصافحہ کرتا ہے تو دونوں کی خطائیں اس طرح جھڑ جاتی ہیں جس طرح (خزاں میں) درخت کے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ (صحیح۔ اسے منذر نے ’’ترغیب‘‘ میں
Flag Counter