Maktaba Wahhabi

132 - 173
اخلاص اور قوتِ کار کی وجہ سے سب لوگ ان کواحترام کی نظر سے دیکھتے تھے… مولوی امیر الدین نے جو لوگ جہاد کے لیے سرحد بھیجے ان کی صحیح تعداد بتانا تو مشکل ہے، البتہ ہنٹر کا کہنا ہے کہ مجاہدین کی ایک سرحدی چوکی کے چار سو تیس آدمیوں میں سے کم و بیش دس فی صد وہابی مجاہد انہی کے بھیجے ہوئے تھے۔ بنگالی مسلمانوں کے دلوں میں مجاہدین کے لیے بے حد تکریم کے جذبات پاے جاتے تھے۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس سے قبل مولانا عنایت علی عظیم آبادی اس علاقے میں بہت کام کر چکے تھے اور لوگوں پر ان کی نیکی اور مخلصانہ کارکردگی کا بے پناہ اثر تھا۔ مولوی امیر الدین پر انگریزی حکومت کے خلاف سازش اور بغاوت کا مقدمہ 1870ء میں مالدہ میں قائم ہوا۔ انھیں ضبطیِ جاداد اور حبسِ دوام بہ عبور دریاے شور کی سزا ہوئی۔ مارچ 1872ء میں وہ کالا پانی پہنچے۔ دس گیارہ سال کی سختی اور جلاوطنی کے بعد 1883ء (1300ھ) میں کالا پانی سے رہا ہو کر واپس وطن آئے۔ یہ تیسرا مقدمہ تھا جو انگریزی حکومت کے خلاف بغاوت اور اعانتِ مجاہدین کے جرم میں وہابیوں کے خلاف قائم ہوا۔ انگریزوں کے نزدیک اسے ’’مقدمۂ بغاوت مالدہ‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ 4۔ راج محل کا مقدمۂ بغاوت مالدہ کے مقدمۂ بغاوت کے تھوڑا عرصہ بعد 1870ء میں وہابیوں کے خلاف چوتھا مقدمۂ بغاوت راج محل میں قائم کیا گیا۔ اس مقدمے کا اصل نشانہ ابراہیم منڈل تھے جو راج محل کے نواح میں ایک مقام اسلام پور کے رہنے والے تھے۔ راج محل صوبہ بہار کی بھاگل پور کمشنری میں واقع ہے۔ ابراہیم منڈل بہت باہمت اور تقویٰ شعار بزرگ تھے۔ عظیم آباد (پٹنہ) کے بزرگانِ دین سے ان کا تعلق تھا۔ جماعتِ مجاہدین کے سرگرم کارکن تھے۔ علاقۂ سرحد
Flag Counter